مصنف: محمد عامر ذوالفقار (ایسوسی ایٹ پروفیسر)
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا نسل انسانی خوب سے خوب تر کی تلاش میں ترقی کی منازل طے کرتی رہی۔ اس دوڑ میں بہت سی چیزوں نے جہاں اپنی معراج کو پالیا وہاں کچھ بد نصیب چیزیں زوال پذیری کا بھی شکار ہوئیں اور بعض معاملات میں حالات اس قدر ابتر ہوئے کہ کافی حد تک وہ چیزیں اپنے معافی و مفاہیم سے بھی ہاتھ دھوبیٹھیں۔ ایسی ہی ایک داستان غم کیمسٹری کی بیان کی جاتی ہے۔
اگر دریا کو کوزے میں بندکرلیا جائے تو صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ کیمسٹری سے مراد سائنس کی وہ شاخ ہے جس میں مادے کی بناوٹ کا مطالعہ کیا جاتا ہے جبکہ مادہ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو وزن رکھتی ہے اور جگہ گھیرتی ہے۔ گویا دنیا کی کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس مضمون کو دسترس سے باہر ہومگر ظالم سماج نے اسے اپنے مقاصد کے لئے کچھ یوں استعمال کیا کہ اس کی روح تک تڑپ اٹھی۔
دورِ حاضر کا طالب علم کیمسٹری پڑھنے کی بجائے اپنے محبوب سے کیمسٹری لڑانے پر زوردیتا ہے۔ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ کیمسٹری اگر مادہ کا علم ہے اور اس کا محبوب بھی مادہ ہی ہے، کیوں نہ اپنے تمام تر مطالعہ کا محور”مادہ محبوب“ کو ہی بنایاجائے۔ اس کے لیے وہ کیمسٹری کی کتاب کو بالائے طاق رکھ کر محبوب کے چہرے کی کھلی کتاب کا مطالعہ کرتا ہے اور یوں اس کے ایف ایس سی کے دو سال گلی محلوں کی گشت لگاتے، رکشوں کاپیچھا کرتے اور گرلز کالجوں کے اردگرد منڈلاتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور پھر اسے اس وقت جھٹکا لگتا ہے جب وہ جس کا وعدہ کیا گیا ہے سرپر آن پہنچتا ہے، یعنی سالانہ امتحان۔ اب اسے اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ جس مادے کا وہ مطالعہ کرتا رہا ہے وہ تو اس کے کورس میں سرے سے موجود ہی نہیں۔ مگر افسوس صد افسوس اب وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے اور سوائے ندامت کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ مگر حقیقی ندامت اس وقت ہوتی ہے جب اسے پتہ چلتا ہے کہ جن کے لیے اس نے اپنے ماہ و سال ضائع کئے تھے وہ تو اچھے نمبروں سے کامیاب ہوچکے ہیں اور اسے پھر امتحان درامتحان کی صعوبتوں سے گزرنے کے لیے تیار رہنے کا کہاجارہا ہوتا ہے۔ مگر شاید اب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور اکثر لوگ یہیں سے پڑھائی کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔
اگر ہم اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے بات کریں تو اس کا مرکز و محور یونیورسٹیاں ہیں۔ یہاں وہ لوگ کیمسٹری کی تشنگی بجھانے آتے ہیں جو کسی طرح پہلے کی دشوار گزار راہوں سے گزر گئے ہوں مگر بدقسمتی یہاں بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اکثر وبیشتر یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم کا رواج ہے۔ یہاں پھر نئے انداز میں کیمسٹری بنانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر یہاں ان کے کچھ ایسے رقیب بھی سامنے آتے ہیں جن کا سوائے ادب و احترام کے کچھ نہیں کرسکتے، وہ ان کے معزز اساتذہ کرام ہوتے ہیں۔ مگر ہم ان بزرگ ہستیوں کے بارے میں صرف خاموشی ہی اختیار کرسکتے ہیں۔
ہاں! البتہ طلباء ابتداء میں نوٹسوں سے راہ و رسم بڑھانے کا آغاز کرتے ہیں۔ جس میں کلاس کا نمائندہ یعنی سی۔آر سب سے آگے ہوتا ہے تاہم باقی ماندہ دل جلے بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔
دھیرے دھیرے وقت گزرتا جاتا ہے اور تعلقات کی کیمسٹری مضبوط سے مضبوط تر جبکہ حقیقی کیمسٹری کمزور سے کمزور تر ہوتی جاتی ہے۔ مگر یہ کمزوری، مرگ کی طرف اس وقت قدم بڑھاتی ہے جب سیشن ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے اور ریسرچ شروع ہونے لگتی ہے۔ ریسر چ ایم ایس سی یا ایم فل میں پیپرز پڑھنے کے بجائے خود سے کیے گئے تجربات کی روشنی میں حقائق مرتب کرنے کا نام ہے۔ یہاں پر زیادہ اہمیت لیبارٹری کو دی جاتی ہے اور حقیقت میں یہ وہ جگہ ہے جہاں حقیقی کیمسٹری کا جنازہ نکالا جاتا ہے۔ یہاں پر اکثر طلباء علم و دانش کی باتیں کرنے کے بجائے پیارو محبت کے افسانے چھرتے ہیں۔ وہ لیبارٹری جہاں بیکر اور فلاسکیں ٹکرانے کی آوازیں آنا چاہیے تھیں وہاں چوڑیاں ٹکرانے اور دل ٹکرانے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ تمام تجربات کا محور صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی طرف صنف نازک ریسرچر کا دل جیت لیا جائے اور ان کے مطابق یہی ان کی تعلیم کا حاصل ہے۔ مگر بہت کم خوش نصیب ایسے ہوتے ہیں جن کے ایسے خواب شرمندہ تعبیر ہوتے ہیں ورنہ اکثروبیشتر لیباٹری میں بیکر اور فلاسکیں ٹوٹنے کی بجائے دل ٹوٹنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ اس کی ایک مثال میرا ایک بہت اچھا کلاس فیلو ہے جس کی زندگی کا مقصد صرف یہی تھا کہ کسی طرح اپنی داستانِ محبت رقم کرے اور اس دوران اسے عشق میں ناکامی کا درد سہنا پڑا۔ دو دفعہ وہ اپنے دو مختلف کلاس فیلوز کے عشق میں ناکام ہوا مگر اس کا ارادہ پختہ تھا، یعنی اسے اس وقت تک یونیورسٹی کی جان نہ چھوڑنا تھی جب تک ”کیمسٹری“ اچھی نہیں ہوتی چناچہ اس نے ہمت نہ ہاری اور تیسری کوشش پر اپنی تیسری کلاس فیلو سے آخر کار شادی رچالی لیکن اکثر طلبا ء اتنے خوش نصیب نہیں ہوتے۔
ثابت ہوا کہ ہمارے اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی اس شر سے محفوظ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی کیمسٹری کالجوں میں محفوظ ہے نہ یونیورسٹیوں میں۔ ہر جگہ اس سے سوتیلی اولاد جیسا سلوک کیا جاتا ہے اور یہ زوال کی طرف گامزن ہے۔ اب حقیقت یہ ہے کہ یہ ناکامی دراصل بحیثیت قوم ہماری ناکامی ہے۔ کیونکہ کسی ملک کی ترقی کا انحصار انڈسٹری کی ترقی پر ہوتا ہے اور کوئی بھی انڈسٹری کیمسٹری کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ لہٰذا بلاشبہ موجودہ دور کی ترقی کا انحصار بہت حد تک کیمسٹری کی مرہون منت ہے۔ شاید آنے والے دور میں طلباء کیمسٹری استوار کرنے کی بجائے کیمسٹری پڑھنے پر دھیان دیں۔ خداکرے کہ ایسا ہواور ہمارا ملک پھر ترقی کی راہوں پر گامزن ہوسکے۔
این دعا از من و از جملہ جہان آمین باد