مصنف: ہارون اشرف کھوکھر
مصنف سول سرونٹ ہیں
انسان کابچپن جہاں بہت سی معصوم یادیں لیے ہوتا ہے وہیں بعض ایسے واقعات بھی ذہن سے چپک جاتے ہیں جن کو یاد کر کے ہمیشہ ایک خوش گوار حیرت، بے وقوفی پر ہنسی اور نئی نئی شرارتیں ایجاد کرنے پر ماں باپ سے پڑنے والی مار یاد آتی رہتی ہے۔
اسی طرح سکول کی سطح کے کچھ واقعات بھی زندگی کی انمول یادیں بن کر رہ گئے ہیں۔ پرائمری پاس کرتے ہی بعض مزید ایسے مضامین سے واسطہ پڑا جن کو اُردو میں پڑھنا، رٹا لگانااور پھر مختلف پرچوں اور امتحانوں میں من و عن تحریر کرنا جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔
ان مضامین میں ایک انتہائی بورنگ”مضمون معاشرتی علوم“ بھی تھا اور خیر سے ہمارے اُستادِ محترم ہمیں اُس مضمون یا اُس میں مستعمل الفاظ کا مطلب تو کیا سمجھاتے ہمیں اُن سے روزانہ ایک ہی جملہ سننے کو ملتا کہ:۔
“بیٹا! اس کتاب میں جتنے کالے کالے رنگ کے الفاظ نازل ہوئے ہیں آپ نے ان کو یاد کرنا ہے۔”
اب بھلااس ابتدائیہ اور اختتامیہ جملے کے بعد کب، کیوں، کیسے، کیا، کون، کہاں جیسے استفہامیہ الفاظ کی گنجائش ہی کہاں بچتی تھی۔
معاشرتی علوم کی کتاب میں استعمال کیے گئے الفاظ جیسےبودو باش، سطح مرتفع، تمدن، مقننہ، عدلیہ، انتطامیہ، قانون ساز، فیڈریشن، خود مختاری، اظہار آزادی رائے، انسانی حقوق، قانون سازی، معاشرہ، انصاف وغیرہ وغیرہ کا مطلب ہمارے ننھے منے سے ذہن سمجھنے سے قاصر اور معذور تھے۔
المیہ یہ ہے کہ یہ معذوری ان الفاظ اور ان کے مفاہیم کو سمجھنے اور دیکھنے کے حوالے سے ابھی بھی نہ صرف قائم ہے بلکہ اندھیرے دن بدن بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔
خیر اس کتاب میں ایک عنوان تھا ”قائداعظم کے چودہ نکات“ جس میں ہماری سمجھ میں نہ آنے والے بہت سے الفاظ کی کثرت تھی۔ تمام نکات کو یاد کرنا، ترتیب وار یاد کرنا ، نہرو رپورٹ اور سائمن کمیشن اور اس جیسی دوسری رپورٹس کے نکات سے غلط ملط نہ ہونے دینا ایک ایسا المیہ تھا جس کا ہم ہر دفعہ شکار ہو جاتے۔
یا تو ترتیب یاد نہ رہتی یا کسی اور رپورٹ کے پوائنٹس / نکات ان چودہ نکات میں مل جاتے اور نکات کی تعداد مطلوبہ تعداد سے کافی آگے نکل جاتی۔ مطلب ہر دفعہ ناکامی و مایوسی اس ٹاپک میں ہمارا پیچھا کرتی رہتی۔
شومئی قسمت کے کلاس کے پہلے دن سے لیکر سالانہ امتحان آنے تک ہمارے اُستادِمحترم ان چودہ نکات کی امتحانی نکتہ گاہ سے اہمیت اُجاگر کرتے رہے وہ الگ بات ہے کہ وہ ان میں لکھی باتوں کی وضاحت اُجاگر نہ کر پائے۔
آخر کار ہم نے سالانہ امتحان سے ایک دن پہلے جی جان محنت سے ان چودہ نکات کو عین اُسی طرح یاد کر لیا جس طرح بانی پاکستان نے پیش کیے تھے۔ خوب دہرا بھی لیے اور ہماری خوش قسمتی دیکھئے کہ سوالنامہ ملتے ہی جب پہلے سوال پر ہماری نظر پڑی تو وہ قائداعظم کے چودہ نکات کے بارےمیں ہی تھا۔ ہماری خوشی دیدنی تھی۔
لیکن جب باقی کے سوالوں پرنظر پڑی تو وہ بھی اسی طرح کے پوائنٹس یا نکات والے تھے۔ جیسے نہرورپورٹ، خطبہ الٰہ باد، شفیع جناح معاہدہ، قرارداد مقاصد اور قرارداد پاکستان وغیرہ۔
ایک دم سے ذہن میں بے پناہ علم اور قابو سے باہر ہو جانے والی کنفیوژن دماغ کی دیواروں سے ٹکرانے لگ گئی اور ہم اُسی المیے کا شکار ہو گئے جس میں چودہ نکات چوبیس سے بھی زیادہ ہو جایا کرتے تھے۔
لیکن یہاں ہمارے دل کو ایک دلاسہ ہوا کہ ہمیں پتہ تھا کہ ہماری کلاس کےپیپر دوسری کلاس کے اُستادِ محترم نے چیک کرنے ہیں اور وہ پڑھتے نہیں بلکہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ شاگرد نے صفحے کالے کیے ہیں یا پیپرخالی چھوڑ دیا ہے۔ یعنی کچھ نہ کچھ لکھا ضرور ہونا چاہیے اور خوش خطی کے ساتھ لکھا ہونا چاہیے۔ اُن کی اسی سخاوت کی وجہ سے بہت سے شاگرد کلاس میں اچھی پوزیشن بھی لے جایا کرتے تھے۔
خیر ! جب ذہن پر زور دے کر لکھنا چاہا تو قائداعظم کے چودہ نکات میں سے صرف ایک جملہ ہی ہمیں یاد آسکا کہ
بمبئی کو بھی سندھ سے الگ کر دیا جائے۔
اب ہمیں اسی ایک جملے کو لیکر چودہ کی مطلوبہ گنتی پوری کرنی تھی اور وہ الحمداللہ کچھ یوں تھی کہ
بمبئی کو بھی سندھ سے الگ کر دیا جائے۔
دونوں کو ہی ایک دوسرے سے الگ کر دیا جائے بھلے اُن کی مرضی ہو یا نہ ہو۔
اگر یہ دوبارہ ملنے کی کوشش بھی کریں تو اس طرح کی ہر غیر قانونی حرکت کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔
بمبئی اور سندھ کے درمیان کسی اور صوبے کو کھڑا کر دیا جائے۔
سندھ سے زیادہ بمبئی قصور وار ہے اُسے لگام ڈالی جائے۔
اگر سندھ اوربمبئی ملنے کی کوشش بھی کریں تو فیڈریشن کو ان کی شکایت لگائی جائے۔
قانون سازی ہی ایسی کی جائے کہ اگر یہ دونوں اپنے انسانی حقوق کے بارے میں بات کرنا چاہیں تو ان پر ایف آئی آر ہو جائے اور معاملہ عدلیہ میں چلا جائے۔
سندھ اور بمبئی کی مقننہ کی تفتیش کی جائے کہ آخر یہ دونوں اکٹھے کیوں رہ رہے تھے جبکہ باقی صوبوں میں سے کسی نے ایسی حرکت نہیں کی۔
ان دونوں کے اکٹھا رہنے کی وجوہات کا مؤثر تدارک کیا جائے تاکہ مستقبل میں وہ ایسی جرات کا سوچ بھی نہ سکیں۔
سندھ اور بمبئی کا آپس میں جو بھی لین دین ہو اُسے دوسرے صوبوں کی موجودگی میں حل کر لیا جائے اور دونوں ایک دوسرے کی چیزیں واپس کر دیں۔
ان دونوں کے اکٹھے رہنے سے سطح مرتفع اور فیڈریشن کی بودوباش پر جو اثر پڑا ہے اُسکی انہیں سزا دلوائی جائے۔
سندھ اور بمبئی کے سیاسی رحجانات کو دیکھتے ہوئے مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جائے اور دونوں کا سیاسی محور تبدیل کر دیا جائے۔
اگر پھر بھی دونوں بغاوت پر آمادہ ہو جائیں تو دونوں کو اکٹھا بٹھا کر ترلہ منت کی جائے اور نہ ماننے ترپولا تھراپی کی جائے اور انہیں بندے کا پُتر بنایا جائے۔
یوں ہم نے قائداعظم کے چودہ نکات پورےکرنے کا مرحلہ طے کر لیا۔ اُس کے بعد کیا ہوا وہ آئندہ تحریر میں بیان کروں گا۔
اللہ پاک ہم سب کو آسانیاں دے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے۔ آمین
4 thoughts on “ہماری تعلیمی تخریب کاریاں اور قائداعظم کے چودہ نکات”
It reminded me about my student life. I also had same feelings about these 14 points…. and could not remember all 14 points ever during my study… most difficult, confusing and without their linking woth other political factors and effects…
Sir it’s really very informative for all of us.
Great article sir
Bitter reality in unique word s …a very good wrinting style..