تحریر: ڈاکٹر محمد کلیم
جیسے کہ آپ جانتے ہیں کہ میرا جنم ہر سرکاری ادارے کے اندر ہوتا ہے۔ اکثر میرے جنم سے پہلے ہی مجھے مار دیا جاتا ہے۔ کبھی مجھ میں لکھے الفاظ پسند نہیں آتے کبھی میرے متن پر اعتراض ہوتا ہے، اس لیے اس دنیا میں آنے سے پہلے اور سرکاری خط کہلانے سے پہلے ہی میں صرف کاغذ پر چند الفاظ بن کر ردی کی ٹوکری کا حصہ بنتا ہوں اور میری آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔ اگر دس خط ٹائپ کیے جاتے ہیں تو صرف ایک ہی تہمت وجود سے منسوب ہو پاتا ہے۔
جدید مشینری، ٹیلی فون اور موبائل آنے پر دوسرے تمام خطوط میرے یار دوستوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے بلکہ میرے خالہ زاد پیارے میاں ”لو لیٹر“کا تو کچھ دن ہوئے انتقال بھی ہو گیا ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ سرکار میں ہونے کی وجہ سے ہم دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں اور ہماری نسل کو ابھی کوئی خطرہ نہیں ہے اور ہم خطوط کے اندر آبادی کے لحاظ سے پہلے نمبر پر اپنی پوزیشن و مقام قائم کیے ہوئے ہیں۔
بات کدھر سے کدھر نکل گئی۔ بات ہو رہی تھی میری کہانی کی۔ میرا جنم آج سے کچھ دن پہلے ایک سرکاری ادارے میں ہوا۔ میرا متن اتنا سا تھا کہ آپ نے ایک پالیسی بنائی ہوئی ہے اس پر عمل درآمد کریں کیوں کہ کسی بھی ملازم کے ایک جگہ پر زیادہ رہنے سے نہ صرف کرپشن پھیلتی ہے بلکہ دفتر کا ماحول بھی خراب ہوتا ہے۔ میرا اس دنیا میں آنا ہی تھا کہ میرے دشمن پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ ان تمام دشمنوں کی میرے سے وجہ عناد اتنی ہی تھی کہ میرے متن میں قانون کی پاس داری اور گورنمنٹ کی منظور شدہ پالیسی پر عمل درآمد کرنے کو کہا گیا تھا اور ان لوگوں کو، جو کہ دس دس سال سے ایک ہی کرسی پر براجمان تھے، ان کو تبدیل کرنے کا ذکر تھا۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.
اس دن میں نے دیکھا کہ ہمارے ملک پیارے ملک پاکستان میں کیسے کسی اچھی بات کو برا بنا کر پیش کیا جاتا اور اس میں سیاسی مصالحہ ڈالا جاتا ہے اور یہی میرے ساتھ ہوا کہ میں سیاست کی نذر ہو گیا اور میرے متن کو سمجھے بغیر صرف دو الفاظ کرپشن، اجارہ داری کو لے کر یہ کہا گیا کہ ان الفاظ کا استعمال کر کے پوری ایک کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ان الفاظ کے استعمال سے ان کی عزت خراب ہوئی ہے، جو کہ میرے خیال میں پہلے ہی تھی لیکن کیا کہا جا سکتا ہے۔
اس سارے مسئلہ کو میں چپ کر کے کونے سے دیکھتا رہا۔ مجھے قوی امید تھی کہ اب میرا اس دنیا میں رہنا ممکن نہیں، اب مجھے جانا ہو گا۔ میرے خلاف احتجاج کیا گیا اور مجھے ختم کرنے کی مانگ کی گئی جو کہ بالکل غیر قانونی تھی لیکن جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اس ملک میں قانون کی کتنی عزت ہے کیوں کہ قانون ہر طاقت ور کے پاؤں کی جوتی ہے اور یہی ثابت ہوا اور آخر کار مجھے لکھنے والوں نے مجھے خارج کر دیا اور کہا گیا کہ اس ملک میں تمھارا کیا کام؟