تو آشنائے جذبۂ الفت نہیں رہا

[post-views]
[post-views]

ن م۔ راشد ایسے شاعر ہیں جنھوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے دور کی روح کی ترجمانی کی بلکہ نئی نسل میں  نیا شعور پیدا کر کے تخلیقی سطح پر نئےرویّوں کو متعین کرنے کا بھی کام کیا۔ آزاد نظم کو عام کرنے میں ان کا نام سر فہرست ہے۔راشد نے روایت سے انحراف کرتے ہوئے اردو نظم میں اک طرز نو کی بنیاد رکھی۔وہ اردو کے ان معدودے چند شاعروں میں ہیں جن کی شاعری نہ تو محض زبان کی شاعری ہے اور نہ محض کیفیات کی۔ان کی شاعری فکر و دانش کی شاعری ہے۔وہ خود بھی سوچتے ہیں اور دوسروں کو بھی سوچنے پر آمادہ کرتے ہیں۔اور ان  کی سوچ کا دائرہ بہت وسیع ،بین الاقوامی اور آفاقی ہے۔ وہ مذہبی،جغرافیائی،لسانی اور دوسری حدبندیوں کو توڑتے ہوئے اک ایسے عالمی انسان کے قصیدہ خواں ہیں جو اک نیا مثالی انسان ہے جسے وہ”آدم نو”یا نیا آدمی کہتے ہیں یہ ایسا انسان ہے جس کے ظاہر و باطن میں مکمل ہم آہنگی ہے اور جو دنیا میں حاکم ہے نہ محکوم ۔۔۔ ایسے انسان کا خواب راشد کی فکر و دانش کا خاص حوالہ ہے۔ راشد کا شعری مزاج رومی، اقبال،دانتے اور ملٹن جیسے شعرا سے ملتا ہے جو اک خاص سطح سے نیچے نہیں اترتے کیونکہ وہ جن مسائل اور موضوعات سے دوچار ہیں وہ ان عمومی مسائل اور کیفیات سے مختلف ہیں جو غنائی شاعری میں تنوّع لوچ اور لچک پیدا کرتے ہیں ان کی شاعری سے لطف اندوز ہونے کے لئے اک  دانشورانہ مزاج کی ضرورت ہے اور اس لحاظ سے وہ عوام کے نہیں بلکہ خواص کے شاعر ہیں۔

تو آشنائے جذبۂ الفت نہیں رہا
دل میں ترے وہ ذوق محبت نہیں رہا

پھر نغمہ ہائے قم تو فضا میں ہیں گونجتے
تو ہی حریف ذوق سماعت نہیں رہا

آئیں کہاں سے آنکھ میں آتش چکانیاں
دل آشنائے سوز محبت نہیں رہا

گل ہائے حسن یار میں دامن کش نظر
میں اب حریص گلشن جنت نہیں رہا

شاید جنوں ہے مائل فرزانگی مرا
میں وہ نہیں وہ عالم وحشت نہیں رہا

ممنون ہوں میں تیرا بہت مرگ ناگہاں
میں اب اسیر گردش قسمت نہیں رہا

جلوہ گہہ خیال میں وہ آ گئے ہیں آج
لو میں رہین زحمت خلوت نہیں رہا

کیا فائدہ ہے دعوئے عشق حسین سے
سر میں اگر وہ شوق شہادت نہیں رہا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos