Premium Content

ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی

Print Friendly, PDF & Email

اقبال کی شاعری تصوّرات کی شاعری ہے۔ لیکن جو صفت تصوّرات کو شاعری بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اقبال تشبیہوں، استعاروں اور مخصوص علامتوں کے ذریعہ اپنے افکار کو مخصوص شکل میں پیش کرتے ہیں جس کا  تقاضہ ہے کہ افکار کے حسّی متبادل تلاش کئے جائیں تا کہ افکار کو جذبہ کی سطح پر لایا جا سکے اور فکر محض خشک فکر نہ رہ کر اک حسّی اور ذہنی تجربہ بن جائے اور اک مخصوص نوعیت کے ادراک کی شکل اختیار کر لے۔ یہی بات کم و بیش علامتوں کے انتخاب میں بھی سامنے آتی ہے۔

ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

امارت کیا شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زور حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلمانی

نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں
کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

نہ ہو نومید نومیدی زوال علم و عرفاں ہے
امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos