مصنف: ڈاکٹر طارق اللہ خان
یہ گورے لوگ بھی بڑے کھلاڑی ہیں۔ مشکل سے قائل ہوتے ہیں اور مشکل سے آپ کے دلائل مان لیتے ہیں۔ کسی بھی دعوے کو ماننے سے پہلے وہ کچھ پیرامیٹرز اور اعشاریوں کی بنیاد پر ڈیٹا مانگیں گے، ڈیٹا کو منظم انداز میں پیش کریں گے، اس کا تجزیہ کریں گے اور پھر بتائیں گے کہ آپ کا دعویٰ ٹھیک یا غلط۔
اگر ہم یہ دعویٰ کریں کہ ہم ہی مہذب قوم، ہمارے اخلاقیات بہت بلند، ہم پر امن اور ترقی یافتہ ہیں تو وہ کچھ اعشارے، ڈیٹا اور انڈیکس کی بنیاد پر ہی اس دعوے کو مانیں گے اور یہی وجہ کہ آجکل ترقی، خوشحالی، تعلیم ، صحت ، غربت افلاس ، اخلاقیات ، عورتوں کے حقوق عرض یہ کہ ہر سیکٹر کو ناپنے کے لیے کچھ پیمانے استعمال ہوتے ہیں جو اگرچہ بلکل حقیقی اور مطلق تصویر کو پیش نہیں کرسکتے لیکن پھر بھی بہت حد تک صحیح عکاسی کرتے ہیں اور ایک تقابلی مطالعہ اور جائزہ پیش کرسکتے ہیں۔
غربت کیا ہے ؟ ترقی کیا ہے؟
غربت اور ترقی کو ہم کس طرح ناپ سکتے ہیں؟ کیا غربت ترقی ناپنے کا یونٹ،ملک، خاندان یا ایک فرد ہے؟
غربت کی شرح معلوم کرنے کیلئے صرف آمدنی ہی کافی ہے، یا تعلیم، صحت اور اثاثے بھی ضروری ہیں۔
غربت معلوم کرنے کیلئے مختلف پیمانے استعمال ہوتے ہیں۔
پہلے ملکی سطح پر کل پیداوار، اور شرح نمو یعنی جی ڈی پی کا حجم اورجی ڈی پی کی بڑھنےکی شرح کو ترقی کی علامت کے طور پر لیا گیا۔
ورلڈ بنک کے مطابق یومیہ پیدوار یا کمائی عموماًامریکن ڈالرز میں ناپی جاتی ہے جو کہ کم ازکم 2.5 ڈالرفی دن فی شخص ہے۔۔ کچھ اداروں کی طرف سے یومیہ خرچہ یا کیلوری کھپت یا خوراک یا تونائی کا روزمرہ استعمال بطور پیمانہ استعمال ہوتا ہے۔
مختلف ڈویلپمنٹ اکانومسٹ نے اس پیمانے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انکے مطابق غربت و افلاس ایک پیچیدہ عمل ہے جس پر بہت سے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ کبھی پیسوں کی فراوانی ہوتی ہے لیکن صحت اور تعلیم کی یا تو سہولیات نہیں ہوتی اور یا لوگوں میں میں عدم دلچسپی ہوتی ہیں۔ کبھی ملک دولت کی فراوانی ہوتی ہے لیکن دولت چند مخصوص طبقے تک محدود ہو تا ہے۔ اس لیےغربت ناپنے کیلیے ایک مفصل اور کثیرجہتی پیمانہ ہونا چاہیے۔
تیسری دنیا اور ترقی پذیر ممالک میں بہت سے محرکات اور مسائل تھے۔ صرف غربت، ترقی کو ایک انڈیکٹر تک محدود کرنا اور اس بنا پر درجہ بندی کرنے سے پوری تصویر واضح نہیں تھی۔ مجموعی پیدوار میں اضافے کے باوجود غربت میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی، سماجی اور معاشرتی صورتحال میں تبدیلی نہیں آئی، بیروزگاری کی شرح میں کمی محسوس نہیں ہوئی، معاشرتی اور معاشی ناہمواری میں اضافہ ہوا اور پہلے سے موجود خاص کلاس اور مضبوط اشرافیہ نے زیادہ فائدہ اٹھا یا۔
اس لیے کافی بحث کے بعد جی ڈی پی کیساتھ تعلیم اور صحت کو ترقی ناپنے کے پیمانے میں شامل کیاگیا جسکوایچ ڈی آئی کہتے ہیں۔ جب اس بنا پر درجہ بندی کی گئی تھی تو بہت سی ریاستیں مثلاً پاکستان جن کی جی ڈی پی میں اضافہ ہوا تھا وہ اچانک کم جی ڈی پی والے ممالک مثلاً سری لنکا سے فہرست میں نیچے چلے گئے۔
اگر چہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس بہت حد تک صحیح عکاسی کیلئے بہتر پیمانہ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ کسی ایک ملک میں طبقاتی تقسیم کی شدت کو بیان نہیں کرسکتا اور نہ ہی ایک خاندان اور ایک فرد کی غربت اور مسائل کو ناپ سکتا ہے۔
کافی تنقید کے بعد یو این ڈی پی نے ایک نیا انڈیکس ملٹی ڈیمشنل پاورٹی انڈیکس وضع کیا ہے۔ ایم پی آئی میں غربت کو ایک گھرانےکے لیول پر ناپا جاتا ہے جس میں مندرجہ ذیل بنیادوں پر ٖڈیٹا اکھٹا کیا جاتا ہے۔
تعلیم سے دو انڈیکٹرز ،صحت سے ایک اور طرز زندگی یا معیاری زندگی سے آٹھ انڈیکٹر ز لیے جاتے ہیں۔ طرز زندگی کےانڈیکٹرزسے مراد گھر میں پانی کی فراہمی،صفائی ، بجلی ، کوکنک آئل ، گھر کی ملکیت اور قسم مثلاً پکا یا کچا مکان ، گھر میں ٹیلیفون ، ٹی وی، ریفریجریٹر ، سائیکل اور موٹر سائیکل شامل ہیں۔
ایک خاص طریقہ کار اور فارمولے کے تحت 0 سے لیکر 1 سکور کارڈ بنایا جا تاہے۔
ایم پی آئی کےمطابق اگر ایک خاندان عالیشان گھر میں رہتا ہے، موٹر کار اور بینک بیلنس بھی ہے لیکن اگر گھر میں کوئی بچی، بچہ تعلیم حاصل نہیں کر رہے اور آؤٹ آف سکول ہے تو وہ غریب کہلائے گا۔اسی طرح اگر شیر خوار کی موت کا کوئی کیس رپورٹ ہوا ہو تو وہ بھی غریب شمار ہوگا۔ اگر دونوں صورتیں یعنی کوئی بچہ سکول نہیں جارہا اور شیر خوار کی موت کا کیس بھی ہوا ہو تو باقی اثاثوں کے باوجود یہ خاندان 50 فیصد غریب شمار ہوگا۔
غربت ناپنے کا کوئی بھی پیمانہ اس وقت تک مکمل تصویر پیش کرنے سے قاصر ہے جب تک کہ کسی ملک، معاشرے میں یہ عدم مساوات، امیر اور غریب کے درمیان وسائل کی تقسیم کے بارے میں اعدادوشمار پیش نہ کریں جیسا کہ اعلیٰ طبقے، متوسط طبقے اور نیچے کے لوگوں کی ملکی پیداوار اور دولت میں کتنا حصہ ہے۔