تحریر: عبدالغفور چوہدری
امیر المؤمنین سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مشہور قول ہے کہ ”معاشرے ظلم کے ساتھ تو قائم رہ سکتے ہیں، بے انصافی کے ساتھ نہیں“۔ یہ بات بھی معروف ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں برطانوی وزیراعظم ولیم چرچل نے اپنے کسی وزیر سے جنگی حالات پر گفتگو کرتے ہوئے پوچھا: ”کیا ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں؟“ انہیں جواب ملا: ”جی ہاں! ہماری عدالتیں انصاف پر مبنی فیصلے ہی کرتی ہیں“۔ اس موقع پر وقت کی انتہائی طاقت ور سلطنت کے وزیراعظم نے بہت بڑا اور تاریخ سازجملہ بولا جو کرہ ارض کی تاریخ میں امر ہو گیا۔ کہنے لگے: “اگر ہماری عدالتیں انصاف پر مبنی فیصلے کررہی ہیں تو ہمیں دنیا کی کوئی بھی طاقت شکست سے دو چار نہیں کر سکتی“۔ پھر اس کائنات کے شب و روز نے مشاہدہ کیا کہ ان کا اس وقت حالت اضطراب میں بولا گیا جملہ مستقبل میں حرف بہ حرف صحیح اورسچ ثابت ہوا۔
اس میں ذرہ بھر شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ وطن عزیز پاکستان کے دیگر اداروں کی طرح ہمارانظام عدل بھی زوال پذیر ہے اور عالمی سطح پر اس کی ریٹنگ دن بہ دن پست ہوتی جا رہی ہے۔ حتیٰ کہ ہم دنیا کی ریٹنگ میں 137 نمبر پر آ چکے ہیں، لیکن ہمارے ذمہ داران اور ارباب بست و کشاد کے کان میں جوں تک بھی نہیں رینگ رہی ہے۔ وہ اپنے حال میں مگن اپنی سابقہ ڈگر پر رواں دواں ہیں۔ اصلاح احوال کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں۔ انہیں اس سے قطعاً غرض نہیں ہے کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لئے اس حوالے سے کیا وراثت چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ اور بعد میں آنے والی نسلیں انہیں کن الفاظ سے یاد کریں۔
اس سے قبل کہ ہم اپنی بات کو آگے بڑھائیں، پاکستان کی عدلیہ میں زیر التوا مقدمات کے اعداد و شمار پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 31دسمبر 2023 کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں 56155، شریعت کورٹ میں 85، لاہور ہائی کورٹ میں193674، پشاور ہائی کورٹ میں 42409، سندھ ہائی کورٹ میں 83941، بلوچستان ہائی کورٹ میں 5012، اسلام آباد ہائی کورٹ میں 17298 مقدمات زیر التوا ہیں۔ اس طرح پاکستان کی تمام ہائی کورٹس میں زیر التوا مقدمات کی کل تعداد 342334 کی قسمت کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ جب ہم صوبوں کی ضلعی عدالتوں کی بات کرتے ہیں تو پنجاب میں 1386615، سندھ میں 131923، خیبر پختونخواہ میں 273762، بلوچستان میں 17818 اور اسلام آباد میں 51694 مقدمات زیر التوا ہیں۔ اس طرح پاکستان کی تمام ضلعی عدالتوں میں کل 1861812 مقدمات زیر التوا ہیں۔
اب ہم سال 2023 کی دوسری ششماہی میں نمٹائے گئے مقدمات اور نئے داخل کئے گئے مقدمات کی طرف آتے ہیں۔ یکم مئی 2023 کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں کل زیر التوا مقدمات 55302 تھے۔ 31-دسمبر 2023 کو صرف چھ ماہ کے قلیل عرصہ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد بڑھ کر 56155 ہو گئی یعنی 1123زیر التوا مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ پاکستان کی تمام ہائی کورٹس میں زیر التوا مقدمات کی تعدادا 332141 تھی۔ جبکہ 31 دسمبر 2023 کو زیر التوا مقدمات کی تعداد 342334 ہو گئی، یعنی 10193 زیر التوا مقدمات بڑھ گئے۔ اگر ہم پاکستان کی ضلعی عدالتوں میں نمٹائے گئے اور نئے داخل ہونے والے مقدمات کا موازنہ کریں تو نتائج کچھ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ یکم مئی 2023 کو پاکستان کی تمام ضلعی عدالتوں میں کل 1788816 مقدمات زیر التوا تھے، جن کی تعداد 31 دسمبر 2023 کو بڑھ کر1861812 ہو گئی یعنی 72916 زیر التوا مقدمات کا اضافہ ہوا۔ راقم السطور چونکہ خود بھی ایک عرصہ تک بطور جوڈیشل مجسٹریٹ عدلیہ کے زیر کمان کام کر چکا ہے۔ اس وقت عدالتوں کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے ایک فارمولہ طے تھا کہ اگر کسی عدالت میں نمٹائے گئے مقدمات کی تعداد نئے داخل شدہ مقدمات سے کم ہے تو سمجھا جاتا تھا کہ ایسی عدالت صحیح شرح سے مقدمات کو نمٹا رہی ہے۔ یقیناً یہ فارمولا آج کل بھی لاگو ہو گا۔ اگر اس پیمانے پر عدالتوں کو پرکھا جائے تو پاکستان کی تمام عدالتوں کی کارکردگی مایوس کن ہے۔
اس سے قطع نظر کہ ہماری عدالتوں میں کتنے مقدمات زیر التوا ہیں، ہماری عدالتیں ان مقدمات کونمٹانے کے حوالے سے انتہائی سست روی کا شکار ہیں۔ برسہا برس تک سائل عدالتوں میں دھکے کھاتے رہتے ہیں، لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔ ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہوتا۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ہماری کچھ عدالتیں فریقین کے مرنے کے بعد بھی مقدمات کے فیصلے سنا رہی ہوتی ہیں۔ جس کا فطری نتیجہ یہ آتا ہے کہ ہماری عدالتوں کی اس سست روی سے مایوس ہو کر عوام یا تو مقدمات کی پیروی کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں یا وہ اپنے آپ پر کئے گئے ظلم کا بدلہ خود ہی لے لیتے ہیں۔ جس سے دشمنیوں کا ایک لا متناہی سلسلہ چل پڑتا ہے۔ جو معاشرتی امن و سکون کے لئے زہر قاتل ہے۔ مہذب ملکوں میں جب کوئی شخص کسی سے زیادتی کرتا ہے تو مظلوم، ظالم کو عدالت میں لے جانے کی دھمکی دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے، ”اب میری اور تمہاری عدالت میں ملاقات ہو گی“۔ لیکن ہمارے ہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں لوگ عدالتوں میں جانے سے گھبراتے ہیں۔ کوشش کرتے ہیں کہ ان کا لوکل لیول پر ہی مک مکا ہو جائے۔ انہیں مقدمہ بازی کے طویل سفر سے خوف آتا ہے کیونکہ مقدمہ بازی کی صورت میں عرصہ دراز تک در بدر کی ٹھوکریں کھانا ان کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں عوام کا عدالتوں پر سے اعتماد آہستہ آہستہ اٹھتا جا رہا ہے، کیوں کہ ایک سابقہ برطانوی وزیراعظم ولیم ایورٹ گلیڈ سٹون کے بقول، ”انصاف میں تاخیر کا مطلب انصاف سے انکار ہے“۔
سوچنے کی بات یہ ہے اس گھمبیر صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟عدالتیں، وکلا یا عوام؟میری ذاتی رائے میں اس دگرگوں صورتحال میں تینوں فریق ہی برابر کے شریک ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارے اکثر عدالتی افسران، خصوصی طور پراعلی عدلیہ کے جج صاحبان کی زیادہ تر توجہ اہم اور سیاسی مقدمات پرہی مرکوز رہتی ہے۔ عام آدمی کے مقدمات پر ان کی نظر التفات کم کم ہی پڑتی ہے۔ ہم نے ماضی قریب میں دیکھا کہ سیاسی مقدمات کتنی سرعت سے عدالتوں میں فکس کئے گئے اور کس سبک رفتاری سے سیاستدانوں کو ریلیف فراہم کیا گیا۔ حتیٰ کہ چھٹی والے دن بھی عدالتیں لگا کر سیاستدانوں کو فوری انصاف مہیا کیا گیا۔ شاید ابھی تک یہ کھیل جاری و ساری ہے۔ جہاں تک وکلاء حضرات کا تعلق ہے وہ بھی اس تباہی و بربادی کے جرم میں برابر کے حصہ دار ہیں۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر وکلاء حضرات چاہیں تو مقدمات نمٹانے کی رفتار میں بہت ہی تیزی آ سکتی ہے۔ لیکن ہمارے اکثر معزز وکلاء حضرات کی کوشش ہوتی ہے کہ مقدمات کو جتنا ہو سکے لٹکایا جا ئے، تاکہ ان کے گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔ کچھ وکلاء حضرات تو حکم امتناعی لے کر عدالتوں سے ہی غائب ہو جاتے ہیں اور اگر جج صاحبان کسی مقدمہ کو نمٹانا بھی چاہیں تو وکلاء حضرات ایسا کرنے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ وکلاء کی آئے روز کی ہڑتالوں نے بھی ہمارے نظام عدل کی تباہی پھیر دی ہوئی ہے۔ یہ بھی روش عام ہے کہ اگر جج صاحبان تھوڑی سی بھی سختی کریں تو آئندہ تاریخ پیشی پر کسی دیگر وکیل کی طرف سے نیا وکالت نامہ عدالت میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ پھر جج صاحب منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور ہاں جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ بھی اس تباہی میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کسی شاٹ کٹ طریقے سے ان کا مسئلہ حل ہو جائے۔ جس کے لئے وہ بے دریغ پیسہ بھی خرچ کرتے ہیں۔ جھوٹے مقدمات بھی بنواتے ہیں۔ اور انہیں ثابت کرنے کے لیے کچھ نہیں بن پڑتا تو وہ کچھ دے دلا کر مقدمات کو لٹکا کر عدالتوں کا قیمتی وقت بھی ضائع کرتے ہیں۔ قصہ مختصر اگر ہم نے اپنے نظام عدل کو ٹھیک کرنا ہے تو پھر عدالتی افسران، وکلاء اور عوام الناس کو مل کر اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا، اپنا اپنا کام انتہائی نیک نیتی، ایمانداری اور دیانتداری سے پایہ تکمیل تک پہنچانا ہو گا۔ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا، حق کا ساتھ دینا ہو گا اور باطل کو شکست سے دو چار کرنا ہو گا۔ بصورت دیگر ہم یونہی نوحہ کناں رہیں گے اور ہمارے آنے والی نسلیں ہمیں بہت برے الفاظ میں یاد کریں گی۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.