Premium Content

“قطار بناتے جائیں، جوس پیتے جائیں”

Print Friendly, PDF & Email

nawazkhalid123@gmail.com مصنف:   نوازخالد عاربی

سن 2000ء کی بات ہے۔ ایک عزیز نے اپنے قصبہ میں پرائمری سکول کھولنے کا ارادہ باندھا۔ جگہ کرائے پر لے لی اور بچوں کا داخلہ شروع کر دیا۔ اسی دوران مجھ سے سکول کی رجسٹریشن کے لئے متعلقہ دفترتک رسائی کے لئے رابطہ کیا۔ میں نے اپنے تئیں ہر ممکن کوشش کر ڈالی لیکن کامیاب نہ ہو پایا۔ تاہم اُس عزیز نے اپنی کوشش جاری رکھی اور وطنِ عزیز میں رائج ”صراطِ مستقیم“ پر چلتے ہوئے رجسٹریشن کرانے میں کامیاب ہو گیا۔ چند روز قبل ایک دیرینہ شناسا سے شادی کی ایک تقریب میں آمنا سامنا ہوا۔ مصروفیات و گزر اوقات دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ انہوں نے لاہور میں یونیورسٹی قائم کرنے کے لئے رجسٹریشن کرا لی ہے۔ تب مجھے سن 2000ء میں دوست کے پرائیویٹ سکول کی رجسٹریشن کے معاملات یاد آگئے۔

Read More: https://republicpolicy.com/pakistan-need-education-reforms/

ایک زمانہ تھا جب  صوبہ پنجاب میں پنجاب یونیورسٹی لاہور، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور گریجوایشن و بعدکی ڈگری دینے والے اداروں کے طور پر جانے جاتے تھے۔ معیاری تعلیم کی فراہمی اُن کا مطمعِ نظر تھا،  اور انہیں کاروبار کی اجازت ہرگز نہ تھی۔ امتحانات سالانہ بنیادوں پر ہوتے۔ گویا سال بھر طلباء اپنے نصاب سے جڑے رہتے۔ انجانے لوگ امتحانوں کے پرچے بناتے اور انجانے لوگ ہی پرچوں کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد نمبر لگاتے۔ جن کی بدولت ہمیشہ قابل طلباء ہی ابھر کر سامنے آتے اور نالائق بھی اپنی پہچان کبھی نہ کھوتے۔ وقت بڑے ”گھڑمس“ کے ساتھ بدلا۔ بڑھتی ہوئی آبادی نے انواع و اقسام کے”پنجاب سپیڈ“ کاروباروں کو جنم دیا۔پراپرٹی ڈیلری کے بعد جس کاروبار کو”دن سو گنی رات چارسو گنی“پذیرائی حاصل ہوئی وہ پرائیویٹ سیکٹر میں ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کا قیام تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ، سرکاری ہسپتال اور تعلیمی ادارے خوبصورت عمارتوں،ڈاکٹروں اور اساتذہ کی فراہمی کو ہی ”مقصودِ کُل“ سمجھنے لگے۔ ہسپتال میں ڈاکٹر موجود ہوتا ہے یا نہیں،مریض کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہے، یہ باتیں بتدریج بے معنی ہوتی گئیں۔ اسی طرح گلی محلوں کے بھاگ جاگے۔ سکولوں،کالجوں کے ساتھ ساتھ وہاں یونیورسٹیاں کُھل گئیں۔ جن میں سے کئی ایک نے اپنے مالکوں کو پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اِن یونیورسٹیوں کے قیام کا مقصد اور انکی تعلیمی کارکردگی زبان پریا تحریر میں لانے کی ضرورت نہیں۔ اہلِ وطن کانوں سے سن اور آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ کبھی یونیورسٹیوں کا نتیجہ بیس سے تیس فیصد آیا کرتا تھا۔ اب سو فی صد آتا ہے۔ آنکھیں ترس گئی ہیں، کبھی کسی نالائق کو فیل ہوتے ہوئے بھی دیکھتے۔

Read More: https://republicpolicy.com/educational-boards-to-decide-new-grading-system-for-matric-inter-levels/

 بی ایس پروگرام کے نام پر،سمسٹر سسٹم کے ذریعے تعلیم کے ساتھ کھلواڑ نہیں، مذاق ہو رہا ہے۔ ماضی میں ماسوائے ”محدودِ چندبندگانِ خاص کے“ کسی طالب علم کو خبر تک نہیں ہوتی تھی کہ اُس کا پرچہ کس یونیورسٹی کے کس پروفیسر کے پاس گیا ہے۔ آج ”استادِ محترم“ طلباء کی قابلیت کی درجہ بندی کرتے وقت پرچوں کے ساتھ ساتھ اُن کے چہروں کے مطالعہ کو بھی ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں۔آج ہمیں شاید ہی کسی یونیورسٹی میں سے کوئی ا یک ایسا استاد دستیاب ہو پائے جس نے کسی ایک سمسٹر کے لئے مختص سارا نصاب اس سمسٹر میں پڑھا نے کی بجائے چند منتخب اسباق پر اکتفا نہ کیا ہو۔ یا کوئی ایک طالب علم ایسا میسرآجائے جس نے اپنے کل آٹھ سمسٹروں میں سے کسی ایک سمسٹر میں کسی ایک مضمون کا پورا کورس پڑھا ہو۔قارئین سے درخواست ہے، اگر کہیں کوئی ایسا استاد یا طالب علم نگاہ سے گزرے تو ضرور بتایے گا،زیارت کرنے کو بہت جی چاہتا ہے۔ سمسٹر سسٹم سے قبل،  سالانہ بنیادوں پر امتحان دینے والے اکثر طلباء سال بھر کا کورس ایک سے زیادہ بار پڑھنے کے”مرتکب ہوتے تھے“۔ جس کے نتیجہ میں اُن کی علمی اساس یاداشت کا محور کبھی نہیں چھوڑتی تھی۔ آج سمسٹرسسٹم میں ہر مضمون کے چند خلاصوں پر اکتفا کرتے ہوئے”اعلیٰ قابلیت“ کی مہر کے ساتھ ”ڈگری“ تو یقیناً مل جاتی ہے۔لیکن  پورے چارسالہ کورس میں  سے کسی طالب علم کے کسی  پسندیدہ ترین موضوع پر اُس سے بات کر کے تو دیکھیں، اُس سے زیادہ شرمندگی آپ کو ہوگی۔

یاد کریں، دیہاتوں میں میلوں ٹھیلوں پر مالٹے کا جوس بیچنے والے ایک ریکارڈ سپیکر پر لگا دیا کرتے تھے،ٍ جس سے مسلسل یہ آواز گونجتی رہتی تھی ”آپ کی آنکھوں کے سامنے مشینیں چل رہی ہیں،جوس تیار ہو رہا ہے،کوئی دھوکہ نہیں کوئی فریب نہیں، آگے آگے آتے جائیں،قطار بناتے جائیں، پیسے دیتے جائیں اور جوس پیتے جائیں“۔مانیں نہ مانیں، کچھ اسی طرح کا حال آج میدانِ تعلیم میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔سب کے سامنے یونیورسٹیاں چل رہی ہیں،ڈگریاں تیار ہو رہی ہیں۔جو پہلے آتا جائے گا، پیسے دیتا جائے گا،  داخلہ لیتا جائے گا، اسے ڈگری مل کے رہے گی۔ آج یہ  راگ’زینتِ زباں“لگتا ہے کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی بے روزگار پھرتے ہیں۔لیکن ان کیلیے جن”مشینوں“ نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے”دریافت“کیے ہیں،اس بے روزگاری پراُن کا”شکر بجا نہ لانا“ کفرانِ نعمت ہوگا۔ پرانے دور کا انگریزی زبان وادب کا طالب علم ہونے کے ناطے، میں نے جتنے بھی بی ایس اور ایم فل انگلش نوجوانوں سے کسی ناول یا ڈرامے پر گفتگو کی تو سوائے ایک آدھ کردار یا کسی ایک چھوٹے سے واقعہ کے وہ کچھ بھی نہ بتا سکے۔ بعض کو تو ناول یا ڈرامہ نگار کے نام تک کا علم نہ تھا،  اور بعض کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ نصاب میں کون سے ڈرامے،ناول یا جدید و قدیم شعراء کی تصانیف شامل تھیں۔

Read More: https://republicpolicy.com/the-tragedy-of-engineers-in-pakistan-a-brigade-of-unemployed-youth/

اساتذہ نے وہی کچھ پڑھانا ہے، جوماہرین نے تجویز کرنا ہے۔ماہرین پر لازم آتا ہے کہ وہ بلا لالچِ وخوف،فیصلہ سازوں کو”ہو چکے“ نقصان سے آگاہ کریں اور مستقبل میں اس کے بڑھتے ہوئے مضمرات کی نشاندہی کریں تاکہ علم و آگہی کا نور تعلیمی دکانوں کی مزید نظر نہ ہو۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos