تحریر: ڈاکٹر محمد کلیم
جب اسامہ صدیق کا ناول ”چاند کو گل کریں تو ہم جانیں“ شائع ہوا تو ہم نے اس کے بارے میں اچھی رائے سنی اور فیصلہ کیا کہ اس کو پڑھیں گے۔ ویسے بھی پاکستان میں ناول وہ بھی اچھے ناول انگریزی یا اردو (دونوں میں ) بہت کم لکھے گئے ہیں اور آپ ان کو اپنی انگلیوں پر گن سکتے ہیں۔ لیکن اس کے مقبولیت کے باوجود جیسے کہتے ہیں ناں ’دنیا میں اور بھی غم ہیں محبت کے سوا‘، اس لیے ہم بھی زندگی کی مصروفیت میں کہیں کھو گئے اور ناول بھول گئے۔
پھر کچھ دن پہلے یوٹیوب پر ایک ویڈیو کے ذریعے جناب ناصر عباس نیئر اور مصنف اسامہ صدیق کی گفتگو سنی اور اس کو پڑھنے کی تحریک پیدا ہوئی اور معلوم ہوا کہ ناول کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے جس کو عاصم بخشی صاحب نے کیا ہے۔ گفتگو سننے کے بعد ہم نے فوراً کتاب کا آرڈر آن لائن دیا اور کتاب کا انتظار کرنے لگے۔ جب ناول ”چاند کو گل کریں تو ہم جانیں“ ہمارے ہاتھ میں آیا تو ہماری خوشی دیدنی تھی۔ ”چاند کو گل کریں تو ہم جانیں“ ایک تاریخی ناول ہے جو کہ موہن جو داڑو سے 2084 تک کا دور اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔
اسی تکنیک پر ”آگ کا دریا“ بھی قرآۃ العین صاحبہ نے لکھا جو کہ اردو کا ایک مقبول ترین ناول ہے لیکن اس کا پس منظر کہیں یو پی کا ہے اور اس میں مستقبل کے دور کی بات نہیں کی گئی لیکن ”چاند کو گل کریں تو ہم جانیں“ میں اسامہ صدیق نے 2084 کے دور میں کیا ہو سکتا ہے کی بھی کہانی پیش کی ہے جس میں قلعہ روہتاس کیمپ کی منظر نگاری کی گئی ہے۔
ناول میں ایک ساتھ چھ کہانیاں چلتی ہیں جو اپنے اپنے دور کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں۔ اس ناول کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کتاب سراب، کتاب شگون، کتاب سوز، کتاب نفرت اور کتاب انحراف۔ ناول دراصل انسان کی کہانی پیش کرتا ہے لیکن ادوار کا فرق ہے۔ ایک شے جو ہمیں مشترک نظر آتی ہے کہ ہر دور میں انسان پر کسی نہ کسی طرح کا جبر رہا ہے اور اس جبر کے خلاف بولنے والے بھی پیدا ہوئے ہیں۔ انسان کا ماحول بدل رہا ہے لیکن انسان کی جو بنیادی احساسات، جذبات اور جبلتیں ہیں وہ مستقل ہیں۔
ہر کہانی کے کردار نہایت عمدہ اور کہانی بہت چست ہے۔ ناول کا اختتام بھی مصنف نے امید افزا واقعہ پر کیا ہے اور دکھایا ہے جب تک انسان ہے جبر کے خلاف آواز اٹھتی رہے گی۔ اس لیے چاند ایک استعارہ بن کر ناول میں ابھرا ہے۔ مصنف اسامہ صدیق نے اس دھرتی کی کہانی لکھی ہے جہاں ہم آج موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاری ناول پڑھتے ہوئے آسانی سے خود کو ناول کے ساتھ جوڑ لیتا ہے۔ عاصم بخشی صاحب نے بہت عمدہ ترجمہ کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ وہ زبان استعمال کی جائے جو اس دھرتی کے لوگ مختلف ادوار میں بولتے رہے ہیں اس لیے کہیں زبان میں سنسکرت کی آمیزش اور کہیں پنجابی کا استعمال بھی کیا گیا ہے جو بعض مرتبہ کہانی کی روانی کو متاثر کرتا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اچھا ترجمہ کیا گیا ہے اور یہ ترجمہ کم اور اردو کی اصل تحریر معلوم ہوتا ہے جو کہ مترجم کی خوبی ہے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ ہر ادب کے قاری کو اس ناول کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.