صاحب ہر بورڈ میں ہیں سوائے؟

[post-views]
[post-views]


تحریر ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی


پہلا بورڈ جس سے اس کی آشنائی ہوئی وہ کیرم بورڈ تھا۔ گھر میں کیرم بورڈ بہت کھیلا جاتا تھا۔ مرد، خواتین، چھوٹے بڑے، بچے اور بوڑھے سب کھیلتے تھے۔ ہر سائز کا بورڈ موجود تھا ۔ہر کمرے میں موجود تھا ۔ ایک کمرہ ایسا تھا جہاں قد آدم سائز کا کیرم بورڈ رکھا تھا ۔ چھٹیوں میں عزیز و اقارب بمعہ اہل و عیال آ جاتے اور مہینوں رہتے ۔ہر طرح کی تفریح سے لطف اندوز ہوا جاتا لیکن جو مزہ کیرم بورڈ کے ٹورنامنٹس میں تھا ،وہ کسی اور میں نہیں تھا ۔ٹیمیں بننا، باپ بیٹے ، ماں بیٹی میں مقابلہ ہوتا اور خوب ہوتا۔ انفرادی مقابلے بھی ہوتے ۔ جیتنے والوں کو قیمتی انعامات دیے جاتے۔ وہ آنے والی نسلوں کیلیے ہیرو کا درجہ حاصل کر لیتے۔جی بھر کر کیرم بورڈ کھیلا جاتا لیکن عمر کے اس حصے میں کھیلنے سے جی کہاں بھرتا تھا؟یوں ہی کھیلتے کھیلتے سکول جانے کی عمر آن پہنچی ۔ اسے قریبی سکول میں داخل کروا دیا گیا۔سکول میں واسطہ دو طرح کے بورڈ سے پڑا۔ایک کمرہ جماعت میں مستقل براجمان بلیک بورڈ اور دوسرا ہیڈ ماسٹر کے کمرے کی دیوار پر نصب سبز رنگ کا بورڈ ۔استاد بلیک بورڈ پر سفید رنگ کے چاک سے لکھتا۔طلباء کو بھی بورڈ پر لکھنا پڑتا۔ کبھی استاد کی استادی کا پردہ چاک ہو جاتا تو کبھی شاگرد کی قابلیت کا ۔کبھی استاد کا چہرہ غصے سے بلیک بورڈ کی طرح سیاہ ہو جاتا تو کبھی طالب علم کا رنگ خوف سے چاک کی طرح سفید ہو جاتا ۔اسے بلیک بورڈ پر لکھی تحریر پڑھنا یا سوال حل کرنا ہمیشہ مشکل لگتا ۔ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں نصب بورڈ پر فقط ان خوش نصیبوں کے نام ہوتے جنہوں نے بورڈ کے امتحان میں بورڈ بھر میں ، شہر بھر میں نمایاں پوزیشن حاصل کی ہوتی یا سکول ہذا میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہوتی ۔والد محترم نے کبھی اسے پڑھائی کی بابت نہ ڈانٹا ،کبھی سکول نہ آئے ۔ دسویں میں پڑھ رہا تھا ۔ آدھا سال گزر چکا تھا ۔اک دن رات کو ناول پڑھ رہا تھا کہ والد محترم کمرے میں آئے ، ماتھا چوما، جاتے ہوئے کہا:-” ہیڈ ماسڑ کے کمرے میں نصب بورڈ پر ہر برادری کے کسی نہ کسی بندے کا نام کندہ ہے۔صرف ہمارا خاندان اس شرف سے محروم ہے۔تم پہ مان ہے اور اللہ تعالی کی ذات سے اچھا گمان ہے”۔ زندگی بدل گئی۔ دن رات محنت کی ۔ بورڈ میں چوتھی اور ضلع میں اول پوزیشن آئی۔ تب پتہ چلا کہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کیا ہوتا ہے۔ہر طرح کی باتیں ہو رہی تھیں۔ بورڈ والے پوزیشنیں بدل دیتے ہیں ، یہ ہوتا ہے ، وہ ہوتا ہے۔ اسے کسی بات پر یقین نہ آیا۔اسی بورڈ سے انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں دوبارہ واسطہ پڑا۔اس کا بائیولوجی کا رزلٹ روک لیا گیا۔ ایک بزرگ کے ساتھ سیکرٹری بورڈ کے دفتر گیا ۔ کچھ عرصہ بعد اس کا رزلٹ آ گیا لیکن توقع کے مطابق نہیں تھا۔ طرح طرح کی باتیں ابھی بھی ہو رہی تھیں مگر اسے کسی بات پر یقین نہ آیا۔ والد صاحب صوبائی سول سروس کے ریٹائرڈ افسر تھے۔انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ و ہ مقابلے کے امتحان کی تیاری کرے ۔ والد کی بات ہمیشہ حرف آخر لگتی تھی۔امتحان دیا اور خاندانی روایت قائم رکھی۔ صوبائی سول سروس کا افسر بن گیا ۔ مختلف شہروں میں تعیناتیاں ہوتی رہی۔ آخر کار ایک ڈویژ ن میں اہم ذمہ داری دی گئی ۔اک دن والد صاحب نے اپنے ایک ہم دم دیرینہ کا ذکر کیا۔ وہ بھی انہیں جانتا تھا ۔ والد صاحب خوش ہوئے اور کہنے لگے :-” میرے دوست کا ایک ہی شوق تھا کہ وہ ہر بورڈ کا ممبر ہو ۔ بہت کوشش کی کہ اسے کیرم بورڈ کھیلنا آ جائے ۔ وہ ہر بورڈ اور ہر کلب کے ممبر تو بن گئے مگر کیرم بورڈ تک نہ کھیلتے تھے ،فقط گپ شپ کرتے تھے۔ ہر بورڈ کی ہر میٹنگ میں جاتے تھے اور ہر کسی کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔خواتین کو کپڑے اور زیورات جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے ۔ انہیں بورڈز اور کلبز کی ممبر شپ کے کاغذات جمع کرنے کا شوق تھا ۔آج کل نجانے کیا حالات ہیں اور کیا ان کے خیالات ہیں؟نوجوان افسر کو یاد آیا کہ اسے جس کلب میں یا جس کسی بورڈ میٹنگ میں جانے کا اتفاق ہواتو وہاں صاحب کو موجود پایا۔ خوشی ہوئی کہ والدصاحب کے دوست بالکل بھی نہیں بدلے تھے ۔ ملازمت کے دوران پتہ چلا کہ یہ شوق رکھنے والے وہ صاحب اکیلے نہیں تھے ، یہ مشغلہ تو ایک کثیر تعداد کا تھا ۔ شاید ازل سے تھااور ابد تک رہے گا۔آنے والا مورخ بھی یہی کہے گا کہ کئی زندہ دل صاحبان ہر شہر میں ، ہر کلب اور ہر بورڈ کے ممبر تھے ۔ گپ شپ کرتے تھے ، آنے والوں کا استقبال کرتے تھے ، جانے والوں کو الوداع کہتے تھے،تمام معاشرتی اور سماجی روایات کا خیال رکھتے تھے۔ یہی لوگ شہر کی ہر محفل کی رونق تھے ۔ اللہ تعالی نے مال و دولت سے نوازا تھا ۔ خوش اسلوب تھے ، خوش اخلاق تھے۔ محفل کو گرمانے میں عاق تھے ۔ چند سالوں سے دنیا بہت تیزی سے بدلی ہے ۔لوگوں کے طور طریقے بدل رہے ہیں ۔ حکومت کرنے کا انداز بھی بدل رہا ہے ۔جدید انداز اپنائے جا رہے ہیں ۔ مختلف اداروں کا انتظام و انصرام بورڈز کے ذریعے چلانا جدید دور کی انتظامی فلاسفی کا اہم جز ہے ۔ بچہ بچہ بورڈ آف ڈائریکٹرز ، بورڈز آف گورنرز اور بورڈ آف مینجمنٹ اور ایسے دیگر متعلقہ الفاظ سے نہ صرف آگاہ ہے بلکہ ان کا مطلب بھی سمجھتا ہے۔ اعلی تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کا انتظام عموماً بورڈز کے ذریعے چلایا جاتا ہے ۔ کسی بھی معتبر اور مشہور ادارے کے بورڈ کا ممبر ہونا انتہائی قابل عزت سمجھا جاتا ہے ۔ بورڈ میں مقامی افراد کو بھی شامل کیا جاتا ہے اور پیشہ ور افراد کو بھی ۔کسی بھی ادارے کا بورڈ پالیسی سازی ، کارکردگی کی نگرانی، بجٹ کی منظوری ، ادارے کے مشن کی تکمیل ، اہم تقرریاں اور دیگر فرائض سر انجام دیتا ہے ۔ دنیا دن بدن پیشہ ورانہ مہارت کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ آج کل بورڈز میں گپ شپ کی بجائے کام کرنے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ سیفی صاحب فرماتے ہیں :-” کسی تعلیمی ادارے کے بورڈ آف گورنرز ، بورڈ آف ڈائریکٹرز یا بورڈ آف مینجمنٹ کا رکن ہونابھی انتہائی قابل عزت بات ہے لیکن اگر بندے نے اسی ادارے سے تعلیم پائی ہے تو ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل کے کمرے میں لگے ہوئے بورڈ پر نام درج ہونا بھی اچھی بات ہے ۔ کلب جانا چاہیے ، بے سبب جانا چاہیے لیکن اگر کیرم بورڈ کھیلنا بھی آتا ہو تو کوئی ہرج نہیں۔ کسی بھی بورڈ میں” کی پوزیشن” پر ہونا اچھی بات ہے لیکن آنے والا دور اسی کا ہے جو کمپیوٹر کے کی بورڈ سے واقفیت رکھتا ہے ۔ بہت ساری روایات “آئی گئی” ہو گئی ہیں اور چند معدومی کے راستے پر ہیں ۔ جو قومیں آئی ٹی پر دسترس نہیں رکھتیں وہ جلد ہی “آئی گئی” ہو جائیں گی۔بورڈ بورڈ کھیلنا بھی اچھی بات ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کی بورڈ سے کھیلیں اور کھیل کھیل میں اپنے وطن کو جنت بنائیں ۔ ترقی اور آ ئی ٹی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ علم دولت ہے بلکہ اب تو علم ہی دولت ہے ۔ بل گیٹس ،مارک زکر برگ، ایلون مسک اور سٹیو جابز ا ور ان جیسے انگنت افراد اس بات کا حتمی ثبوت ہیں کہ اب علم ہی دولت ہے ۔ آئیے! علم حاصل کریں ، یہی کامیابی کی کنجی ہے ۔ علم دولت بھی ہے اور طاقت بھی ۔ علم جنون بھی ہے اور سکون بھی ۔ علم فلسفہ بھی ہے اور فنون بھی ۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos