(چوتھا حصہ)
مصنف : ڈاکٹر محمد نصراللہ
ظلمت کے آرکی ٹائپ کے پیش نظر مظہر علی خان ولا کی داستان“بیتال پچیسی” بھی معنویت کی حامل ہے۔ داستان میں مرکزی کردار راجا بکرم سین کا ہے۔ جوگی، لاش اور اس کے اندر گھسنے والا بیتال کا کردار بھی راجا کی کہانی بیان کرنے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔ جوگی ہر روز راجا کے دربارمیں حاضر ہو کر اسے ایک پھل نذرانے کے طور پر پیش کرتا ہے۔ راجا پھل جوگی سے لے کر اپنے خزانچی کے حوالے کردیتا ہے۔ یہ سلسلہ دس برس تک چلتا رہا۔ ایک روز راجا نے جوگی کا دیا ہوا پھل اپنے پالتو بندر کے آگے پھینک دیا۔ بندر نے پھل کھایا تو اس میں سے ایک قیمتی موتی نکل آیا۔ راجا نے یہ رتن دیکھ کر خزانچی سے باقی ماندہ پھلوں کے بارے استفسار کیاتو خزانچی نے کہا کہ وہ تمام پھل خزانے کا دروازہ کھولے بغیر کھڑکی کے راستے سے اندر پھینکتا رہا ہے۔ راجا کے کہنے پر وہ خزانے کا دروازہ کھول کر اس میں سے پھل لینے گیا توآگے انمول رتنوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ راجا نے خزانچی کی ایمان داری سے خوش ہو کر وہ رتن اسے ہی بخش دیے۔ اگلے روزجب جوگی پھل لے کر آیا تو اس سے روز اس قیمتی نذرانہ دینے کی وجہ پوچھی۔ جوگی نے بتایا کہ وہ ایک منتر سدھ کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے اسے راجا جیسے مہاراج کی مددچاہیے۔ راجا نے مدد کرنے کی حامی بھرلی اور اس کے کہنے پر اس شمشان جا پہنچا جہاں جوگی بیٹھا تھا۔ جوگی نے اسے کہا کہ یہاں سے کچھ فاصلے پر سرس کے ایک پیڑ پر ایک لاش لٹکی ہے، وہ اٹھا کر یہاں لے آئے۔ راجا پیڑ کے پاس پہنچا، پیڑ پر چڑھ کر رسی کاٹی تو لاش نیچے آگری۔ زمین پر گرتے ہی لاش نے چیخ مار کر تکلیف کا اظہار کیا۔ راجاسمجھاکہ لاش میں ابھی جان باقی ہے؛مگر جب لاش نے قہقہہ لگایا تو راجا کو یوں لگا جیسے اس میں کوئی بیتال آ گیا ہو۔ راجا نے اس سے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو وہ غائب ہو گئی۔ لاش پیڑ پر دوبارہ لٹک رہی تھی۔ راجا نے لاش کوپھر سے اتارا اور کمر پر لاد جوگی کی طرف چل دیا۔سفر آسانی سے کٹ جائے اس لیے بیتال نے اسے کہانیاں سنانا شروع کردیں۔ ہر کہانی کسی نہ کسی سوال پر ختم ہوتی۔ جواب معلوم ہونے پر خاموش رہنے کی سزا راجا کی موت تھی۔
راجا کے جواب دینے پر بیتال پھر پیڑ سے جا لٹکا۔ راجانے چوبیس باراسے پیڑ سے اتارا۔پچیسویں کہانی کا جواب راجا سے نہ بن پڑا۔ مردے کے اندر گھسے بیتال کو اندازہ ہو گیا کہ راجا جواب نہیں دے سکے گا۔ اس نے اس کی شانت طبیعت اور مستقل مزاجی سے متاثر ہو کر نہ صرف اسے جوگی کے ہتھ کنڈے سے بچانے میں مدد دی بلکہ اس کی ریاضت کا پھل دینے کے بارے بھی سوچا۔بیتال نے راجا سے یہ کہہ کر لاش چھوڑ دی کہ جوگی موکلوں کو مسخر کرنے کے لیے راجا کو بھینٹ چڑھانا چاہتا ہے؛ مگر وہ اس پر الٹا وار کر کے اس کا سر اڑا دے۔ راجا، بیتال کی نصیحت پلے باندھ کر جوگی کے پاس پہنچا۔ اس کا سر اڑا دیااور اس کے سینے میں سے دل نکال کر بیتال کی بھینٹ چڑھا دیا۔ شیو جی اس عمل سے خوش ہوئے اور راجا سے کہا
”میں نے ازل میں اپنی ہی ذات کے ایک حصے سے تمھیں تخلیق کیا تھا تاکہ تم شیاطین کو شکست دے سکو۔“
بظاہر یہ ایک دلچسپ کہانی ہے جسے ہندو ذہن نے تخلیق کیا، جو جادو پر یقین رکھتا تھا؛مگرحقیقت میں یہ علامتی کہانی ہے،کیونکہ حقیقت میں تو کوئی شخص نہ لاش کے ساتھ مکالمہ کر سکتا ہے اور نہ ہی لاش بول سکتی ہے۔ راجا جو لاش اٹھا کے لے جا رہا تھا وہ اصل میں ڈرپر اور روح کی تاریکی پر فتح پانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ لاش اسی کے اندر کا تاریک پہلو تھی، اس سے الگ نہیں تھی، اسی کا حصہ تھی، اسی سے بات کر رہی تھی۔ لاش کے اندر بیتال بھی وہ خود ہی تھا؛ حتی کہ مکار جادو گر بھی وہ خود ہی تھا۔ بقول زمر
اس ڈراؤنی حد تک مکار جادوگر کو اس ضرورت سے زیادہ سادہ لوح راجا سے ٹکر لینی ہی تھی۔ دونوں ایک تھے۔ یہ راجا ہی تھا جس نے اسے پیدا کیا تھا، اسے اپنی ہی روحانی بے بصری کے مثنی کے طور پر تخلیق کیا تھا۔ ولیم بلیک نے اسی خیال کو یوں ادا کیا ہے: میرا سایہ رات دن رہتا ہے میرے اردگرد۔۹۱
راجا کی شخصیت کا روشن پہلو یہ تھا کہ اس نے لاش اور بیتال سے جان نہیں چھڑائی بلکہ ان کا سامنا کیا۔ بیتال کے سوالوں کا جواب دیا، یعنی اس سائے پر توجہ دی جس نے اسے اپنی لپیٹ لے لیاتھا۔ نتیجے میں وہی اندھیرا اس کے لیے روشنی میں بدل گیا۔وہ لاش اور بیتال اس کے لیے
رہنما اور نجات دہندہ کے آرکی ٹائپ بن گئے۔ انھیں بھی اس نے خود ہی دریافت کیا تھا۔ اپنی ذات کے ان پہلوؤں کو جنھیں راجا نظر انداز کرتا چلا آرہا تھا، قبول کرنے سے یہ تبدیلی آئی۔ بقول نووالس
خود پر حاوی ہونے والا ہیرو بیک وقت فطرت پر بھی حاوی آجاتا ہے۔ جس لمحے متضاد ناگوار چیزیں اسے خوشگوار معلوم ہونے لگتی ہیں اسی وقت ایک معجزہ ظہور میں آتا ہے جو اسے متضاد خوشگوار چیزیں عنایت کر دیتا ہے۔
کائنات میں سب مظاہر ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ کوئی شے تنہا نہیں ہے، انسان، حیوان، چرندپرند، نباتات، جمادات، سب کا ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ ہے۔ سب ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر ایک شخص پر اس کا شیڈو حاوی رہتا ہے تو اس کے اردگرد کا سارا ماحول اس سے منفی اثرات قبول کرے گا۔ وہ چاہے خاموش بھی رہے اس کے وجود سے برآمد ہونے والی لہریں اس کے آس پاس کے ماحول پر اثرانداز ہوں گی۔ اس کے برعکس اگر ایک شخص مثبت خیالات کا مالک ہے یعنی اس نے اپنے شیڈو پر قابو پایا ہوا ہے تو اس کی لہریں مثبت اثرات چھوڑیں گی۔ جب آدمی اپنے شیڈو پر قابو پالیتا ہے تو وہ اپنی لہروں کے ذریعے اپنے اردگرد کی فطرت کو تبدیل کر رہا ہوتا ہے۔ راجا نے بھی اپنے شیڈو پر حاوی ہو کر روح کی فتح حاصل کی۔ اندھیرے کا سامنا کر کے روشنی تک پہنچا۔ بقول کارل ژونگ
کوئی سایہ سورج کے بغیر پیدا نہیں ہوتا۔ یہ حقیقت تو چیزوں کی فطرت میں ہے کہ روشنی اور تاریکی ہو، سورج اور سایا ہو، شیڈو ناگزیر ہے اس کے بغیر انسان مکمل نہیں ہو سکتا۔
راجا کی کہانی میں لاش اور اس کے اندر بیتال اس کا شیڈو تھے، اس کے حریف تھے۔ اس نے انھیں پہچانا، ان پر توجہ دی،اس طرح اس کی ذات مکمل ہوئی۔بقول زمر
شخصیت اس وقت تک سالم اور حقیقی نہیں ہو سکتی، راجا باضابطہ راجا نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے حریف کو پہچان نہ لے۔