کل اور آج


تحریر:۔ ڈاکٹرسیف اللہ بھٹی


مسلمانوں کی اکثریت بڑی قناعت پسند ہے۔ ہم دنیا میں صرف اتنا رول چاہتے ہیں کہ ایک ماڈل کو اپنا سکیں۔ رول ماڈل کا اسراف ہم نے ایک طویل عرصے سے غیر قوموں کے لئے چھوڑا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہماری قوت پرواز کی حد ایک ماڈل کی بجائے چار ماڈلز کو اپنانے تک پہنچ جاتی ہے یا پھر ہماری تگ و دو ماڈل تبدیل کرنے تک رہتی ہے اور ہم پہلی فرصت میں پرانا ماڈل تبدیل کر کے نیا لے آتے ہیں۔

ہماری قناعت پسندی کا عالم اب تو یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ ہم سرے سے یہ تہمت اپنے سر لینے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ ہمارے ہاں رول ماڈل نامی کو ئی شئے بھی پائی جاتی ہے۔ ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ ہمارا دامن اس سے پاک رہے۔ ایک نسل جسے رول ماڈل سمجھتی ہے دوسری نسل اسے صرف نمونہ سمجھنا شروع کر دیتی ہے۔ بلکہ اب تو ہمارا یہ عالم ہو گیا ہے کہ جسے صبح رول ماڈل سمجھا جاتا ہے شام کو اسے صرف رولا سمجھا جاتا ہے۔

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com

ایک شخصیت جس کو کچھ لوگ ماڈل سمجھتے ہیں دوسرے اس کے ماڈل ہونے میں کسی اور کا رول نکال لیتے ہیں۔پہلے ہمارے ہاں ہر محلے میں امام مسجد سے لے کر پرائمری سکول کے استاد تک سب ہی رول ماڈل ہوتے تھے۔ مگر اب ٹی وی کو دیکھ کے یہ لگتا ہے کہ شاید دنیا کی سب سے زیادہ ماڈلز ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں اور پاکستان میں ہر خاتون ایک ماڈل بن چکی ہے۔

ٹی وی دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ خوبصورتی پاکستان میں ہے، مگر ٹی وی بند کر کے اپنے گرد و پیش میں نظر دوڑائی جائے تو منظر بالکل بدلا ہوا لگتا ہے۔ہمارا مقامی لباس ایک عرصہ دراز سے ہمارے لئے اجنبی ہو چکا ہے ہماری مقامی زبانیں بھی تقریباً ہمارے گھروں میں متروک ہو چکی ہیں۔

انگریزی سے اتنی محبت انگریز نہیں کرتے جتنا ہم کرتے ہیں اب ہمارے اکابر بھی ہمارے لئے اجنبی ہوتے جا رہے ہیں۔کبھی ہمارا ہر شخص اپنی جگہ ایک نگینہ ہوتا تھا، مگر اب ہمارا میڈیا دنیا کو ہماری ایسی عجیب تصویر دکھاتا ہے کہ یہ گمان ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں ایک بھی صاحب کردار نہیں ہے۔ ہمارے لوگ اپنے ہی لوگوں سے بیزار ہیں اور غیروں کے پرستار ہیں۔

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com

کسی زمانے میں ہمارے ہاں کوئی آدمی مرتا تھا تو فلک روتا تھا۔ اب تو دیہاتوں میں بھی یہ عالم ہو گیا ہے کہ کوئی آدمی مرتا ہے تو فلک شیر بھی نہیں روتا۔ زندگی موت دونوں ہی تماشہ بن گئے ہیں۔ پہلے ہم اپنی اصلاح اور لوگوں کی فلاح کرتے تھے۔ اب ہم صرف لوگوں کی عزت تباہ کرتے ہیں۔

پہلے ہر شخص کی باتوں سے دوسروں کے لئے بے قراری ٹپکتی تھی اب صرف بے زاری ٹپکتی ہے۔ اصلاح اورمزاح میں بڑالطیف اور گہرا تعلق ہے۔ ہمارا تہذیبی مزاج یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر عورت کو عفیفہ سمجھا جاتا ہے، مگر آج کل کے لوکل چینلز کے ڈرامے دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہمارے ہاں عورت کو صرف لطیفہ سمجھا جاتا ہے۔ پہلے ہمارے ہاں بد کو بھی عزت دینے کا رواج ہوتا تھا اور اب نیک کو بھی بے عزت کرنے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔

پہلے ہمارے ہاں ماڈلز بالکل نہیں پائے جاتے تھے اور ان سے کوئی کام نہیں لیا جاتا تھا،مگر آج کل تو ہمارے ہاں لگتا ہے کہ صرف ماڈلز ہی پائے جاتے ہیں اور رول ماڈلز کا کام بھی انہی سے لیا جاتا ہے۔پہلے ہم بنگالیوں پر ہنستے تھے اور اسی ہنسنے نے اب ہماری دوسری نسل کو رونے پر مجبور کیا ہوا ہے۔

ہم نے واقعی ہنسی مذاق میں یار گنوادیا اور اب دل سے ہوک اٹھتی ہے مگر وہ یار ہمیں نہیں ملتا۔ہمارے ہاں آج کے دور میں بھی ایک سے ایک خوبصورت انسان، ایک سے بڑھ کر ایک قابل تقلید نمونہ موجود ہے، مگرہم خود شایدمکمل طور پر بصیرت سے محروم ہو چکے ہیں لوگوں کے عیب ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہماے اندر شاید اچھائی محسوس کرنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں رہی۔ ہم احساس کمتری کی اس اتھاہ گہرائی میں گر چکے ہیں جہاں ہمیں لگتا ہی نہیں کہ ہمارے اندر بھی کوئی خوبی پائی جاتی ہے۔ یہ رحجان شدید خطرناک ہے۔ہمیں بہت سنجیدگی سے اس بارے میں سوچنا ہو گا۔ لوگوں کے دل سے پاکستانی ہونے کا فخر دن بدن ختم ہوتا جا رہا ہے۔پہلے ہمار ا معیار بلند تھا اور ہمارا ذاتی کردار اس سے بلند تر تھا۔

ہماری نظر میں ہر آدمی کا کردار بہترین تھا۔ اب ہمارا معیار پست ہے اور ہمار اپنا ذاتی کردار پست تر ہے۔ اسی لئے ہمیں ہر آدمی خود سے پست لگتا ہے۔ پہلے لوگ اپنی اصلاح اور دوسروں کی فلاح کے چکر میں رہتے تھے۔ او ر آج کل ہم اپنی فلاح اور دوسروں کی اصلاح کے چکر میں رہتے ہیں۔ ہمارے بزرگوں کو اپنی اصلاح اور دوسروں کی فلاح کی فکر ہوتی تھی جبکہ ہمیں اپنی فلاح اور دوسروں کی اصلاح کی فکر ہر وقت لگی رہتی ہے۔کبھی ہمارے ہاں مرُدوں کی اچھائی بیان کرنے کو بہت بڑی نیکی سمجھا جاتا تھا،جبکہ اب ہمارے ہاں زندوں کی برائی کرنے کو بہت بڑی نیکی گردانا جاتا ہے۔ ہمیں اپنی اقدار کو اپنانا ہو گا اور خود کو قابلِ فخر بنانا اور منوانا بھی ہو گا۔ ہمیں معاشرے میں جلد ازجلد سب کے رول متعین کرنا ہونگے ورنہ ہم دنیا کی تاریخ میں جلد ہی ایک ایسا ماڈل بن جائیں گے جو پرانا اور بوسیدہ ہو چکا ہے۔سنا ہے کہ گئے وقتوں میں ماڈلز مغرب میں اور رول ماڈلز ہمارے ہاں پائے جاتے تھے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos