حصہ دوم
مصنف: ڈاکٹر محمدنصراللہ
ظلمت کے آرکی ٹائپ کو سمجھنے کی کوشش کرنا انسانی مخلوق کا بلاتعصب جائزہ لینے کے مترادف ہے کہ انسان محض اپنے اندر اعلٰی اوصاف نہیں رکھتا، وہ فرشتہ نہیں،انسان ہے؛گویاہماری دنیا میں آدمی ہوناکسی حد تک،یا بڑی حد تک گنہگار ہونے کے ہم معنی بھی ہے۔انسان کے فرشتہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر غیرانسان(حیوان) بھی موجود ہے۔یہ کسی کسی میں نہیں، ہر ایک کے اندر ہوتا ہے۔ جو کوئی اس کا انکار کرتا ہے وہ اپنی ذات سے متعلق کم آگاہ ہے۔ جو اپنے اندر دیانت داری سے جھانکتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ اس کی ذات کے اندر سیاہی بھی موجود ہے۔وہ اپنے اندر منفی و تخریبی جذبات واطوار بھی رکھتا ہے؛یعنی غصہ، نفرت،خوف، بددیانتی، مایوسی،بزدلی،سنگ دلی،جلدبازی، حسد، ہوس، لالچ،خود غرضی،منافقت،داخلی کشمکش،ملکیت پسندی، غلبہ پسندی، خودپسندی، تکبر،درندگی،وحشت،ہٹ دھرمی،خود کو یا دوسروں کو مارڈالنے کی سوچیں:یہ سب تاریک پہلو، جن کا شعورو انا انکار کرتے ہیں،انسان کا سایہ ہوتے ہیں۔یہ سایہ انسان کو ورثے میں ملا ہے۔نسل در نسل اجتماعی لاشعور کے ذریعے سفر کرتا ہوا۔ انسان مختار ہے تو مجبور بھی ہے۔ فطری و جبلی طور پر کج رو بھی ہے۔ تھوڑی بہت کجی نارمل بات ہے۔ تاریکی فطرتی مظاہر کا بھی خاصہ ہے۔ چانداپنے اندر تاریکی رکھتا ہے۔ سورج اپنا سایہ رکھتا ہے۔ ڈوبنا بھی اس کی فطرت ہے۔ مہذب لوگ بھی غصے، نفرت یا دیگر منفی جذبات کا شکار ہوجاتے ہیں۔اگر کسی انسان کو کبھی کبھار غصہ آتا ہے تو یہ عام بات ہے؛البتہ اگر کوئی شخص ہروقت غصے،نفرت اور حسد کے زیر اثر رہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا شیڈو طاقت ور ہوتا جارہاہے۔ شیڈو کا پتا نہ لیا جائے، اپنے اندر اس کا سراغ نہ لگایا جائے، اسے دیکھا، قبول نہ کیا جائے تو یہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ اس قدر پھیل جاتا ہے کہ انسان کا پورا وجود اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ ایسے لوگ اچھے احساسات کے ساتھ زندگی بسر نہیں کرتے۔ان کے خیالات و جذبات انھیں کھاجاتے ہیں۔نفرت، غصے اور جنس سے متعلق وہ جذبات جنھیں انھوں نے دبا دیا تھا، ان کا اظہار نہیں کیا تھا۔ انھیں اپنے دل سے نکالا نہیں تھا؛ الٹا انھیں پالا تھا، وہ مسخ شدہ جذبات ان کااندر ہی اندر خاتمہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ان جذبات کو پالنے والے لوگ جلد بیماریوں اور موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔یاد رہے کہ اہم بات شیڈو کی جانچ کرنااور اسے قبول کرنا ہے؛کیونکہ جب اسے قبول کر لیا جاتاہے، اس پر قابو پانے کا عمل بھی شروع ہوجاتا ہے۔
کارل ژونگ کے خیال کے مطابق بھی انسان محض نور کا تخیل باندھنے سے روشن ضمیر نہیں ہوتا بلکہ ظلمت کا سامنا کرنے سے، تاریکی کو شعور میں لانے سے۔دنیا کے مختلف ماہرین نفسیات واخلاقیات، ماہرین حیاتیات و بشریات اور فلسفیوں نے انفرادی و اجتماعی سطح پر انسان کے اندر موجود اس تاریک حقیقت کو قبول کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ولی اور پیغمبر بھی اپنے باطن کو ہر طرح کی میل اور سیاہی سے پاک رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ مذہبی صحائف میں انسانی مخلوق کے کمزور پہلوؤں کا بارہا ذکر اس حکمت کا آئینہ دار ہے کہ انسان اپنے اندر پیدا ہونے والے شہوت انگیزجذبات، شرآمیز خیالات کو پہچانے اور اس پر قابو پانے کی کوشش کرے۔
ماہرین حیاتیات کے مطابق ہمارے آباؤ اجداد دانتوں اور پنجوں کے ساتھ زندہ رہے تھے۔ تہذہب و تعلیم کے نتیجے میں انسانی مخلوق اپنی ذات میں موجود حیوانیت کو شک اور شرمندگی سے دیکھتےہیں؛ حالانکہ حقیقی علم انسان کو اپنی ذات سے متعلق درست حقائق فراہم کرتا ہے۔ہم سب میں حیوان موجود ہے؛مگر اخلاقیات کی فطری حس اور تہذیب و مذہب اسے پنجرے میں قید رکھتے ہیں۔
انسانی فطرت کی حقیقت سے متعلق آئن سٹائن اور سگمنڈ فرائیڈ کے درمیان ایک خط کے ذریعے ہونے والا تبادلہ خیال بھی حیاتیاتی و نفسیاتی اعتبار سے انسانی مخلوق کے بارے اہم حقائق سامنے لاتا ہے۔ آئن سٹائن اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ انسان اپنے اندر منفی جذبات کا طوفان رکھتا ہے۔ اس آگ کو کسی معمولی سی بات پہ بھڑکایا جاسکتا ہے۔
آئن سٹائن، فرائیڈ سے جاننا چاہتے ہیں کہ کیا انسان کے ذہن کو اس طرح سے قابو کیا جاسکتا ہے کہ اس کے اندر سے نفرت، تشدد اور تخریب کے
جذبات کو نکالا جاسکے؟
فرائیڈ اس سوال کے جواب میں جبلت مرگ و حیات کونظام زندگی کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔فرائیڈ کی حیاتیاتی اعتبار سے ہر زندہ مخلوق خود کو دوبارہ سے غیرنامیاتی و مردہ حالت میں لے جانا چاہتی ہے؛گویا جبلت مرگ ہر جاندار کا خاصہ ہے۔ اس صورت حال کے برعکس جبلت حیات کا مقصد خود کو زندہ رکھنا ہے۔انھی دونوں جبلتوں میں سے کسی ایک جبلت کا پلڑایک وقت میں حاوی ہوتا ہے۔ان دونوں میں سے کسی ایک جبلت کو ختم نہیں کیا جاسکتا؛البتہ تخریبی جبلت کا رخ تہذیبی عوامل کی طرف موڑا جاسکتا ہے۔ فرائیڈ کے نزدیک ہمارے پاس تخریبی جذبات کو قبول کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔
ژونگ آرکی ٹائپل تناظر میں تاریکی کے وجود کو سامنے لاتے ہیں؛جبکہ فرائیڈ جبلی تناظر میں انسانوں اور دیگر مخلوقات میں تخریبی جذبات کا سراغ لگاتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل ڈاکٹر محمد اجمل بھی آرکی ٹائپس کو فطرت کی مانند قرار دے چکے ہیں۔ مشہور ماہر بشریات نوحال ہراری بھی اپنی کتاب ”اکیسویں صدی کے اکیس سبق“ میں نظریاتی سطح پراپنے انفرادی و اجتماعی سائے کو پہچاننے کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔
ہمارے بنیادی ذہنی نمونے اٹل ہیں، انھیں کوئی نہیں بدل سکتا،امیر غریب، طاقت ور کمزور، سب غصے سے دوچار ہوتے ہیں، دکھ اور مایوسی سے گزرتے ہیں،مسرت کا تعاقب کرتے ہیں، یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے۔تھوڑے بہت فرق کے ساتھ جاری رہے گا۔پھر کیا کیا جائے؟ اس تکلیف دہ چکر سے کیسے نکلا جائے؟اپنی کتاب ”تاریخ بشر“ میں ہراری گوتم بدھ کے خیالات کی روشنی میں اس شیطانی چکر سے جانے کی راہ سمجھاتے ہیں۔
”گوتم نے پالیا کہ اس شیطانی چکر سے جانے کی ایک راہ بھی ہے۔ اگر ہمیں ذہنی اذیت یا ناخوشگوار کیفیت کے دوران چیزوں کی فہم حاصل ہوجائے تو ہم اس کی پیداکردہ اذیت سے نکل سکتے ہیں۔ اگر آپ کو اداسی کا تجربہ ہو تو اسے بھگانے کے پیچھے دیوانے نہ ہوجائیں تو آپ خود کو اداس تو محسوس کریں گے لیکن اس کی تکلیف نہ رہے گی۔“
برٹرینڈ رسل کے نزدیک بھی عظمت کو پانے کے لیے انسان کا پہلے اپنی کمزوریوں اور حدود کو جاننا لازمی ہوتا ہے۔ایرک فرام اپنی کتاب میں دوقسم کے انسانی رویوں پر بات کرتے ہیں۔ ایرک فرام کے نزدیک خودغرضی اور ذہنی و جسمانی بھوک موجود دور کی سب سے بڑی قدر بن چکی ہے۔لوگ زیادہ سے زیادہ چیزوں کے مالک بننا چاہتے ہیں۔ہر شے کو ہتھیا لینے کی، اسے ہڑپ کرنے کی، اس کا مالک بن جانے کی خواہش کاغلبہ پوری دنیا کے طاقت ور اورسرمایہ پرست طبقے کا شیڈوبن چکاہے۔ہر چیز پر قبضہ کرنے کے پیچھے محض انا و ہوس کا جذبہ کارفرماہوتا ہے۔ لوگ اس منفی جذبے کا سامنا کرنے سے کنی کتراتے ہیں۔ انھیں اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ذہن، کندھوں اور روح کا بوجھ بڑھا رہے ہوتے ہیں۔دنیا کے تمام عظیم پیغمبر اور مفکر اس حقیقت کی طرف دھیان دلاتے ہیں کہ انسان ملکیت کی غلامی سے چھٹکارا پاجائے۔بقول مہاتما بدھ
انسانی ترقی کا بلند ترین مقام یہ ہے کہ انسان اپنی ملکیت کا غلام نہ رہے۔
ادب میں شیڈو آرکی ٹائپ کے اظہار کی صورت کیا ہے؟ اس سوال کے جواب سے قبل مذہبی صحائف میں انسانی ذات کے ادنا پہلوؤں کو دیکھ لینا مناسب ہے۔قرآن مجید کی کئی آیات میں انسان کو تنگ دل، حریص، جھگڑالو، ناشکرا، جلد باز، بے انصاف اور تھڑدلا کہا گیا ہے۔یعنی فطرت کی اولین سطح پر یہی انسانی فطرت کی حقیقت ہے؛مگر انسان صرف یہی کچھ نہیں ہے۔ وہ اپنی ذات کی کمزوریوں کو جان کران پر حاوی ہونے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ قرآن حکیم میں بھی انسان کی فطری کمزوریوں کا ذکر بار بار اس لیے کیا گیا ہے کہ انسان اپنے وجود کے تاریک حصے سے اچھی طرح آگاہ ہو لے۔ پوری سچائی سے اس کا سامنا کر لے؛تاکہ اس سے آگے روشنی کی جستجو بھی کرسکے
کہہ دیجیے کہ اگر بالفرض تم میرے رب کی رحمتوں کے خزانوں کے مالک بن جاتے تو تم اس وقت بھی اس کے خرچ ہو جانے کے خوف سے اس کو روکے رکھتے اور انسان ہے ہی تنگ دل۔
بیشک آدمی بنایا گیا ہے، بڑا بے صبرا، حریص۔
بائبل میں ایوب کی کتاب کی کہانی قابل ذکر ہے۔ ایوب نیک آدمی ہے۔ خدا کا برگذیدہ ہے۔ اس کے بچے مرجاتے ہیں، املاک تباہ ہو جاتی ہیں، پے در پے ایک سے بڑھ کر ایک مصیبتیں آتی ہیں تو وہ گھبرا جاتا ہے۔کریہہ اور ناگوار بیماری میں مبتلا وہ اپنے اندر غم و غصہ محسوس کرتا ہے۔ وہ غصے کا اظہار کرتا ہے۔ خدا سے گلے کرتاہے۔ شکایت آمیز سوال پوچھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ راست باز ہے۔ اس نے کوئی برائی نہیں کی؛ اس کے باوجود وہ کیوں عذاب میں مبتلا ہوا؟ وہ خدا سے اپنے سوالوں کے جواب چاہتا ہے۔ ایوب اپنے انسان ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ وہ دکھ، تکلیف، مصیبت کی انتہاؤں کو چھوتا ہے۔ وہ بے قصور ہے پھر بھی اپنے ہونے کو بھگتتا ہے
ہمارے درمیان کوئی ثالث نہیں جو ہم دونوں پر اپنا ہاتھ رکھے۔۔۔کیا تیری آنکھیں گوشت کی ہیں یا تو ایسے دیکھتا ہے جیسے آدمی دیکھتا ہے؟۔۔۔پس تونے مجھے رحم سے نکالا ہی کیوں؟میں جان دے دیتا اور کوئی آنکھ مجھے دیکھنے نہ پاتی۔