Premium Content

Add

‏عدلیہ کا پاکستان کی عدالتی تاریخ کا سب سے بڑا امتحان

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: بیرسٹر رومان اعوان

یوں تو پاکستانی عدلیہ ہمیشہ سے ہی امتحانات میں گھری رہی ہے مگر موجودہ چیلنج اس لحاظ سے منفرد ہے کہ عدلیہ کے احکامات کو ماننے سے سرے سے ہی انکار کر دیا گیا ہے۔ تاریخی طور پر عدلیہ سے مرضی کے فیصلے کروائے گئے تھے، مگر جو بھی فیصلے ہوئے انکو مانا گیا یا عدالتی طریقہ کار سے بدلوا لیا گیا۔ تاہم یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پنجاب الیکشن نہ کروا کر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو بالکل ہی رد کر دیا گیا۔ بات یہاں تک نہیں رکی بلکہ عدلیہ کے ساتھ تکرار جاری ہے۔ عدلیہ کو اس چیلنج میں وکلاء کی روایتی حمایت بھی حاصل نہیں ہے اور عدلیہ کے اندر ججز کے ہاں بھی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ اس لیے موجودہ چیلنج کو عدلیہ کا سب سے بڑا چیلنج کہا جا سکتا ہے۔

حکومت کی تین شاخوں میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ شامل ہیں۔ مقننہ کا کام قانون سازی اور انتظامیہ کا کام عملداری کروانا ہے۔ عدلیہ کا کام آئین و قانون کے مطابق قانونی فیصلے کرنا ہے۔ آئین کے آرٹیکل ون کے مطابق پاکستان ” وفاقی جمہوریہ” ہے اس لیے وفاق ہونے کے ناطے عدلیہ کے پاس جوڈیشل ریویو اور یہاں تک کے ایگزیکٹو رویو کے اختیارات بھی ہیں۔

پاکستانی عدلیہ اختیارات کے لحاظ سے مضبوط ترین عدلیہ ہے، اور ناقدین تو اسکے اختیارات کو جوڈیشل مارشل لاء سے تشبیہ دیتے آئیں ہیں۔ پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کے لئے عوام نے قربانیاں دی ہیں۔ 2007 میں عدلیہ بحالی تحریک پاکستان کی وہ واحد تحریک ہے جو کہ مذہب کے نام کے علاؤہ کامیابی سے ہم کنار ہوئی ۔ 2007 کے بعد وکلاء اور جج اتنے مضبوط ہو گئے کہ مقننہ، اور انتظامیہ کو اپنے زیر نگیں کر لیا۔ ناقدین کا خیال ہے کہ عدلیہ اپنے بنیادی اختیارات سے کہیں تجاوز کرتی رہی ہے۔

مگر اب مسئلہ اختیارات کے تجاوز کا نہیں ہے بلکہ بنیادی طور پر آرٹیکل 224 (2) کے تحت الیکشن کروانے کا ہے جس پر سپریم کورٹ آرڈر پاس کر چکی ہے۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ مقننہ اور انتظامیہ کو تو آگے لگا لیا جائے اور اختیارات سے تجاوز کیا جائے، پر جب طاقتور ادارے سامنے آ جائیں تو بنیادی آئین کی ہی عملداری نہ کروائی جا سکے اور نظریہ ضرورت سے کام لیا جائے۔ جوڈیشیل ایکٹیوزم کے بعد عدالت کو اپنی آزادی و خودمختاری ثابت کرنا ہو گی۔

پاکستان میں عدالتی ریفارمز کی اشد ضرورت ہے۔ ججز کی ریکروٹمنٹ اور وکلاء کی ریگولیشن بنیادی اصلاحات ہیں۔ آزاد مگر آئین کے تابع عدلیہ ہی ملکی انصاف کو بہتر کر سکتی ہے۔ عدلیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ مقننہ، انتظامیہ، وکلاء، اسٹیب، بیوروکریسی، پولیس اور باقی سب طاقتور اداروں کے درمیان ایک جیسا انصاف ممکن کر سکے۔ اگر ایسا کرنے میں ایک فیصد بھی جھول آ جائے تو انصاف ممکن نہیں ۔ اس سے بڑھ کر ججز کی پرفارمنس، احتساب اور ذمہ داری کا تعین تھرڈ پرسن کرے۔ آخر میں پنجاب الیکشن نہ کروانے پر عدلیہ آئین پر عملداری کا فیصلہ نہ کروا سکی تو عدلیہ کا یہ کردار پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سیاہ باب کے طور پر لکھا جائے گا۔ اس تناظر میں ججز، وکلاء اور عوام کا امتحان بھی ہے کہ وہ کیسے آئین کی بالادستی کرواتے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1