اگرچہ میں ہوں پرانا چور، آج مگر ہو گیا ہوں بور


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہیں ایک چور صاحب انتہائی مزے سے چوریاں کیے جا رہے تھے۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا اور ہمارے چور صاحب آرام سے رات گئے راوی پار کرتے تھے۔چوری کرتے تھے۔چین کی بانسری بجاتے تھے۔سو جاتے تھے۔اگلے دن پھر اٹھ کر کام پر چلے جاتے تھے۔مدت گزر گئی۔ ان کے معمولات میں فرق نہ آیا مگر حکیم صاحب نے فرمایا تھا :-؎
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
ایک صاحب جو شاید حکیم تو نہیں تھے مگر دانا تھے۔ انہوں نے بھی مدتوں پہلے فرما دیا تھا “سو دن چور کے اور کئی دن بور کے”۔ہمارے چور صاحب ایک دن بور ہوۓ اور اگلے کئی دن بور ہوتے رہے۔ہوا کچھ یوں کہ ایک دن چور صاحب اس اعتماد کے ساتھ گاؤں میں ایک گھر میں داخل ہوۓ کہ تھوڑی دیر بعد ہی واپس اپنے گھر ہوں گے۔ صاحب خانہ اس دن علالت کی وجہ سے گھر ہی تھے۔ کام پر نہیں گئے تھے۔ انہوں نے کھٹکا سنا تو چور کو پکڑ لیا۔چور نے یقین دلانے کی کوشش کی کہ نہ اس کی داڑھی ہے اور نہ ہی ارد گرد کوئی تنکا پڑا ہے۔وہ غلط فہمی کی بنیاد پر اس گھر میں داخل ہو گیا ہے۔ صاحب خانہ جانتے تھے کہ چور چوری سے جاۓ ہیرا پھیری سے نہ جاۓ اور چور تو کو توال کو ڈانٹ سکتا ہے وہ تو پھر ایک عام سے انسان تھے ۔ انہوں نے چور کو گھر کے صحن میں ایک درخت کے ساتھ باندھ دیا۔ برادری کے لوگ بلا لیے۔ غورو فکر شروع کر دیا کہ چور کے ساتھ کیا کیا جاۓ ۔ایک دن سوچ بچار میں گزر گیا کیوں کہ ہمارے بھائیوں کا خیال تھا ، جلد بازی شیطان کا کام ہے۔ چور کو بوریت ہونے لگی۔چور نے درخواست کی کہ جلدی سے کوئی فیصلہ کیا جاۓ اگر اسے حوالہ پولیس کرنا ہے تو حوالہ پولیس کیا جاۓ۔ مار پیٹ کرنی ہے تو وہ بھی کر لی جاۓ۔ کوئی جرمانہ کرنا ہے تو جرمانہ کر دیا جاۓ۔صاحب خانہ چور کا خانہ خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔نہ ظالم تھے، نہ جلد باز۔ پلاننگ کرتے تھے تو پوری پلاننگ کرتے تھے۔ سوچ بچار کے قائل تھے لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ چوروں کے بھی اصول ہوتے ہیں جب دس دن گزر گئے تو چور صاحب بوریت کی انتہا پر پہنچ گئے۔انہوں نے صاحب خانہ سے کوئی اہم سوال کیا ۔ سوال کا جواب ملتے ہی اپنی رسیاں کھولیں اور کہنے لگے” میں چور ہوں مگر تھکن اور بوریت سے چور چور ہو گیا ہوں۔میں ساتھ والے گاؤں میں رہتا ہوں ۔ اپنے گھر جا رہا ہوں ۔ تین ماہ بعد چکر لگا لوں گا۔اگر آپ کسی نتیجے پر پہنچ گئے تو تابعداری کروں گا ورنہ ہر تین ماہ بعد حاضری دیتا رہوں گا۔ جب تک سانس ، تب تک آس ۔ اگر آپ میری زندگی میں کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو میرا بیٹا بڑا فرمانبردار ہے۔وہ چکر لگاتا رہے گا۔ آپ کو پورا حق ہے کہ آپ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں”۔ چور صاحب نے گھر کی راہ لی۔ وہ جانتے تھے کہ ایک دن چور کی شامت آتی ہے اور چوری پکڑی جاۓ تو بہانے بنانے پڑتے ہیں لیکن جس صورتحال سے ان کا واسطہ پڑا تھا وہ ان کے وہم و گمان سے بھی پرے تھی۔ وہ چور بنے ہی اس لیے تھے کہ انہیں جلد بازی کی عادت تھی ۔ اس سانحے کے بعد انہیں اپنے مرحوم بڑے بھائی کی یاد آئی جو میڈیکل کالج میں داخلہ لینے میں تو کامیاب رہے تھے مگر ڈاکٹر نہ بن سکے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ جب ان سے انسان کے نظام تنفس یا کسی اور نظام کی بابت سوال کیا جاتا تھا تو وہ اپنی بات لنگور سے شروع کرتے تھے ۔ پھر چمپینزی پہ آتے تھے۔ انسان کی باری آنے تک کمرہ امتحان میں موجود ہر انسان انتہائی بور ہو چکا ہوتا تھا سواۓ بھائی جان کے۔ وطن عزیز کی تاریخ میں وہ شاید پہلے اور آخری میڈیکل سٹوڈنٹ تھے جنہیں ان کے علم کی وسعت اور گہرائی کی سزا پہلے پروفیشنل امتحان میں ہی دے دی گئی۔ چار چانسز میں کوئی بھی مضمون پاس نہ کرنے کی بنا پر انہیں کالج سے نکال دیا گیا۔ وہ بالکل مایوس نہ ہوۓ ۔ جانتے تھے کہ یہاں میرٹ نہیں چلتا، سفارش چلتی ہے۔محنت کی اور ایک اہم سرکاری ادارے میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوگئے۔میٹنگز کی اہمیت سے واقف تھے۔ دن کا آغاز میٹنگز سے کرتے تھے اور اکثر اوقات دن کا اختتا م بھی اسی میٹنگ سے ہی کرتے تھے۔ ہر معاملے پر غورو تدبر کرتے تھے۔ بسا اوقات تو صرف غورو تدبر ہی کرتے رہتے تھے اور کچھ کرنے کی نوبت ہی نہ آتی تھی ۔ ماتحت ان سے انتہائی خوش تھے۔ صبح میٹنگ میں باقاعدگی سے آتے تھے۔ درمیان میں اپنے ذاتی کام کاج کر آتے تھے۔ دفتری اوقات کار کے اختتام سے آدھا گھنٹہ پہلے آ کر پھر میٹنگ میں شریک ہو جاتے تھے۔ یوں گلشن کا کاروبار چلتا رہا۔ موسم آۓ ، بیت گئے۔ازل سے آسمان معصوم لوگوں کو امتحان میں ڈالتا ہے۔ ان کی بھی کئی انکوائریاں ہوئیں مگر وہ ہر بار اپنی صفائی دینے میں کامیاب رہے۔ افسران بالا خود بھی ڈپٹی ڈائریکٹر رہ چکے ہوتے تھے۔ نصاب ایک ہی تھا۔ انہہوں نے انتہائی شاندار طریقے سے محکمہ میں خدمات سر انجام دیں۔ریٹائرڈ ہوۓ تو پورے عزت و احترام کے ساتھ انہیں رخصت کیا گیا۔

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com

چور اگرچہ راوی کنارے رہتا تھا لیکن چناب کے پار بھی اس کے رابطے تھے۔ اسے جھنگ والوں کی ایک کہاوت بہت یاد آتی تھی۔ اگرچہ یہ کہاوت دنیا کے ہر علاقے میں رہنے والے لوگوں پر صادق آتی ہے۔ایک آفاقی سچائی چناب اور جہلم کے سنگم پر رہنے والے تریموں واسی کی زبانی ۔ ” کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ایک شریف آدمی بڑ ی مدت بعداپنے گاؤں آئے۔عمارتیں بناتے تھے، اپنے کام کے انتہائی ماہر تھے۔دیکھا کہ ایک صاحب بیٹھے ہیں۔ سامنے تعمیراتی کام جاری ہے۔ دیوارٹیڑھی بنائی جا رہی ہے۔نہایت ادب سے بتایا کہ دیوا ر صحیح نہیں بن رہی۔صاحب نے سنا مگر خاموش رہے۔ دوبارہ بتانے کی کوشش کی۔ جواب ملا ” آپ کے خاندان کی ایک لڑکی نے اپنی پسند سے شادی کر لی تھی۔ آپ اس لڑکی کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ نہایت حیرت سے پوچھا ” میں آپ کو کیا کہہ رہا ہوں اور آپ مجھے کیا کہہ رہے ہیں”۔ جواب نے اتنا حیرت زدہ کیا کہ شریف آدمی مرتے مرتے بچا۔ کہا گیا “بات سے بات تو پھر ایسے ہی نکلتی ہے”۔بات سے بات نکالنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے۔محترمہ سکینہ سفینہ ایک جگہ لکھتی ہیں ” چوری ہر طرح کی بری ہے لیکن سب سے بد ترین چوری وقت کی چوری ہے”۔ہم لوگ تو بیچارے چور کا بھی وقت ضائع کر دیتے ہیں ، باقیوں کا تو خیر ذکر ہی کیا۔ ایک صاحب اپنے افسر اعلی کو انتہائی فاخرانہ لہجے میں بتانے لگے ” سر پورے دفتر میں ، میں اکیلا آدمی ہوں جو صحیح وقت پر آتا ہے باقی لوگ بہت دیر سے آتے ہیں”۔ افسر نے انتہائی حیرت سے پوچھا “آپ وقت پہ آ کر کرتے کیا ہیں”؟ صاحب کو چپ لگ گئی اور آج تک لگی ہوئی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos