سالی اور قحط سالی


ہمارے آج کے کالم کا بنیادی مقصد عوام کو اردو ادب کی دو عظیم شخصیات سے روشناس کروانا ہے۔ کالم نگار کسی صنفی امتیاز کا قائل نہیں۔ ایک مقالہ نگار کا تعلق صنف نازک سے ہے تو دوسری شخصیت کا تعلق صنف غیر نازک سے ہے۔سیفی صاحب ضلع جھنگ میں پیدا ہوۓ۔اعلی تعلیم عمرانیات میں حاصل کی۔عرصہ دراز سے پی ایچ ڈی کیے جا رہے ہیں۔ قریبی دوستوں کا دعوی ہے “حضرت پیدائشی پی ایچ ڈی ہیں”۔ایک مزاح نگا ر کے بقول پی ایچ ڈی کا مطلب “پھرا ہوا دماغ “ہوتا ہے۔کچھ حلقے سیفی صاحب کو پیدائشی سنکی سمجھتے ہیں۔سیفی صاحب کے مقالے کا عنوان ہے” برصغیر کے مرد حضرات کی شخصیت سازی میں سالی اور قحط سالی کا کردار”۔مقالہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔مقالہ نگار کے عزیز و اقارب کا خیال ہے “مقالہ نگار مقالہ نہیں لکھ رہے، منہ مزید اور شدید کالا کر رہے ہیں۔رو سیاہی سے مزید گمراہی کی طرف ان کا سفر تیزی سے جاری ہے”۔ سیفی صاحب اپنے عزیز و اقارب کی راۓ کو کوئی اہمیت دینے کیلیے تیار نہیں ۔ ان کا کہنا ہے “اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں”۔ سیفی صاحب کوئی بھی موسم ہو ، پریشان نہیں ہوتے او ر سردیوں کی شاموں میں تو بالکل بھی اداس نہیں پھرتے۔اس کی وجہ وہ خودکچھ یوں بتاتے ہیں۔”اب وطن عزیز میں سردیاں آتی ہی نہیں۔ سردی کے مہینے تو سموگ اور فوگ کی نذر ہو جاتے ہیں۔ نہ سردی آتی ہے، نہ شام ہوتی ہے، عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے”۔

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com

سیفی صاحب کا دعوی ہے کہ یہ مقالہ ان کا روشن حوالہ ٹھہرے گا۔ ان کا اصرار ہے “ہر اردو دان کو یہ مقالہ ضرور پڑھنا چاہیے، صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے” اور یاران نکتہ چیں کو بھی کھلا چیلنج ہے ۔ جملہ سسرائیل کو بھی دعوت خاص و عام ہے کہ ہر وقت چیں چیں کرنے کی بجاۓ مقالہ پڑھیں، راۓ دیں۔ مقالہ نگار ابتدائی صفحات میں لکھتے ہیں” کرہ ارض پر صنف غیر نازک کا ابتدائی دور انتہائی درخشاں تھا۔ ہمارے جد امجد کا نہ کوئی سالا تھا، نہ کوئی سالی، نہ کوئی سسر، نہ کوئی ساس”۔ہماری دوسری مقالہ نگار شخصیت محترمہ سکینہ سفینہ سیتی کا تعلق بنیادی طور پہ ضلع قصور سے ہے۔ محترمہ نے عمرانیات میں اعلی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ دونوں مقالہ جات کا اگر سرسری طور پر بھی مطالعہ کیا جاۓ تو کئی مقامات پر حیرت انگیز مماثلت سامنے آتی ہے ۔آپ کے مقالے کا عنوان ہے” برصغیر میں صنف نازک کی شخصیت سازی میں زیور ، دیور، تیور اور فیور کا کردار”۔پہلے صفحے پر ہی دریا بلکہ سمندر کوزے میں بند کر دیا ہے۔لکھتی ہیں کہ ” نہیں محتاج دیور اور فیور کا ، جسے خوبی خدا نے دی”۔مزید فرماتی ہیں :-؎
مولا اتنی تو کر فیور
ایک بھی نہ ہو میرا دیور
جب بھی شوہر کو دکھاؤں تیور
وہ لا کے دے نیا ، نیا زیور
محترمہ لکھتی ہیں ” ہماری اماں حوا کا نہ کوئی دیور تھا ، نہ کوئی نند”۔ محترمہ کا مقالہ اردو ادب میں ایک قابل قدر اضافہ ثابت ہو گا۔ ہمیں یقین ہے کہ عوام الناس اس مقالے سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔ آئندہ آنے والے دنوں میں اس مقالے پر تفصیلی کالم لکھے جائیں گے۔آج کا ہمارا بنیادی موضوع جناب سیفی صاحب کا مقالہ ہے ۔ لکھتے ہیں ” برصغیر میں صنف غیر نازک پر وہ سنہری دور بھی گزرا ہے جب راجے ماہراجے، بادشاہ، شہزادے عشرۃ سالا، تسعۃ سالا،، ثمانیۃ سالا، سبعۃ سالا، ستۃ سالا،خمسۃ سالا ہوا کرتے تھے۔ اسلام کے ظہور کے بعد چہار سالا،سہہ سالا، دو سالا دور آیا ۔ اب وہ وقت آ گیا ہے جب اکثر لوگ یک سالا ہوتے ہیں۔ بندے کی ایک ہی شادی ہوتی ہے”۔مزید لکھتے ہیں ” سالی زیادہ خطرناک ہوتی ہے یا قحط سالی ، اس بابت کوئی حتمی راۓ قائم کرنا مشکل ہے تاہم ایک فقیرکے خیال میں سالی ، قحط سالی سے زیادہ نقصانات کا موجب بن سکتی ہے”۔ مکمل قصہ فقیر کی زبانی پیش خدمت ہے۔” میں اب فقیر ہوں مگر پہلے انجینئر تھا۔ یو ای ٹی سے سول انجینئرنگ میں اعلی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ سگریٹ نوشی کرتا تھا، نوشی پہ مرتا تھا، اسی کا دم بھرتا تھا، محبت میں توحید کا قائل تھا، فراز کی شاعری سے گھائل تھا، نوشی کی بارگاہ حسن میں سائل تھا،اک دن ایک پارک میں نوشی کا ہاتھ پکڑ ے “جدید اردو شعراء میں سگریٹ نوشی کا رجحان” پر روشنی ڈال رہا تھا کہ ہر طرف اتنی تیز روشنی ہوئی کہ میں شرما اٹھا ، نوشی گھبرا اٹھی، سامنے کھڑی تھی میری سالی، ساتھ تھے اس کے باغ کے تمام مالی، اگرچہ تھا میرا رتبہ عالی، بننا پڑا مجھے سوالی، سالی بجاتی رہی تالی، مالی مجھے سمجھے تھالی، بیگم نے اپنی الگ دنیا بسا لی، اب نہ بیگم ہے، نہ سالی، اب بھی کرتا ہوں سگریٹ نوشی، اگرچہ ساتھ میرا چھوڑ چکی ہے نوشی، طاری رہتی ہے مجھ پہ خود فراموشی، اب تو ہونے لگی ہے وقتاً فوقتاً بے ہوشی، ختم ہو چکی ہے گرم جوشی، پھر بھی میں کہتا ہوں، نوشی نوشی”۔ مقالہ نگار تبصرہ کرتے ہوۓ لکھتےہیں” انسان ازل سے جانتا ہے کہ سالا اگر “مچھر” جاۓ تو آدمی کو ہیجڑا بنا دیتا ہے۔ سالی اگر مچھر جاۓ تو آدمی کو کیا بنا دیتی ہے ؟ اس بابت تاریخ خاموش ہے لیکن مندرجہ بالا وقوع سے پتہ چلتا ہے کہ سالی اگر مچھر جاۓ تو انجینئر کو فقیر بنا سکتی ہے، گھر میں قحط سالی لا سکتی ہے، سالی کا قحط ہی بہتر ہے۔سالی کے بھائی کو سالا کہا جاتا ہے۔ مہر لسانیات کا خیال ہے کہ لفظ سالا انگریزی لفظ “ایس اے ڈبلیو”سا کی جدید شکل ہے۔عمومی طور پہ سالی اور سالا بیگم کے دل کے آس پاس پاۓ جاتے ہیں جہاں شوہر کا گزر مشکل ہی نہیں ، ناممکن بھی ہے۔ سالے کی وجہ پیدائش کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک ڈاکٹر صاحب کے خیال میں سالا دنیا میں اس لیے جلوہ افروز ہوتا ہے کہ ساس سسر کی جملہ جائیداد اپنے نام لگوا سکے۔ والدین کو زندگی میں ہی مایا کے چکر سے نجات دلا سکے۔ان کی آخرت سنوار سکے اور اپنی دنیا ۔ وہ والدین کے ساتھ ساتھ دیگر بہن بھائیوں کی آخرت بھی سنوار دیتا ہے۔ بعض اوقات دنیا بگاڑ دیتا ہے مگر یہ بات اتنی اہمیت کی حامل نہیں۔ بیگم کو اردو میں بیوی ، زوجہ اور بھی بہت کچھ کہا جاتا ہے مگر کہتے وقت ہمیشہ یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ سن نہ رہی ہو۔ چھوٹی سالی عموما بیگم سے چھوٹی اور بڑی سالی بیگم سے بڑی ہوتی ہے۔ ان میں وہی فرق ہوتا ہے جو قحط اور کال میں ہوتا ہے، بہار اور خزاں میں ہوتا ہے۔ سالی کے شوہر کو سیفی صاحب” ہم ظلم” کہتے ہیں۔ بعض لوگ زندگی کو غصے سے” سالی زندگی” کہتے ہیں۔سالی کو آدھی گھر والی بھی کہا جاتا ہے۔ سالی اور قحط سالی کے باوجود مثالی زندگی گزارنے کے کئی طریقے ہیں مگر یہ طریقے ابھی مرد حضرات کے علم میں نہیں۔ تحقیق جاری ہے۔ کیا زندگی سالی اور قحط سالی کے بغیر گزاری جا سکتی ہے؟ مقالہ نگار کے بقول یہ سوال اہم ہے۔ مقالہ نگار کی پوری زندگی اسی سوال کا جواب تلاش کرتے گزری ہے مگر وہ ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ مقالہ نگار کی استدعا ہے کہ آپ بھی اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں۔؎
بیوی سے بات کیجے نہ سالی سے پوچھئے
غالبؔ کا کیا مقام ہے حالی سے پوچھئے
جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔)

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos