تحریر: نعمان جمیل بٹ
بھئی تم بالکل فکر مت کرو۔ الیاس صاحب جو ڈی آئی جی ہیں ناں، وہ بس سمجھو اپنے رشتے دار ہی ہیں۔ اب تم خوامخواہ کی پریشانیوں سے آزاد ہوجاؤ۔ تمھارے بیٹے کی بھرتی کا کام تو سمجھو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ الیاس صاحب کےلیے تو یہ بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔‘‘ شکیل صاحب نے پرویز صاحب کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
اب ایک طرف تو پرویز صاحب مطمئن ہوگئے تو دوسری طرف الیاس صاحب الگ پریشان کہ کہاں ان کے کزن کے دوست کے دوست شکیل صاحب انھیں اپنا قریبی رشتے دار ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور کام بھی اپنا نہیں بلکہ اپنے ہمسائے کا بتا رہے ہیں۔
یہ مسئلہ روز اول سے ہے اور شاید ابد تک رہے گا کہ لوگ ہمیشہ چڑھتے ہوئے سورج کی ہی پوجا کرتے ہیں۔ رشتے دار ہوں، عزیز و اقارب یا دوست احباب، جب کسی خاص اور اہم عہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو تمام لوگ ان کے قریب ہونا چاہتے اور خود کو ان کے ذریعے سے متعارف کرواتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ لیکن جب کوئی بھی رشتے دار غریب و نادار ہو اور اعلیٰ عہدے پر فائز نہ ہو تو قریب کے دوست اور رشتے دار بھی اس کے پاس سے کنّی کترا کر گزر جاتے ہیں۔
شادی بیاہ ہو یا کوئی اور تقریب، وہاں اس غریب رشتے دار اور دوست کو مدعو نہیں کیا جاتا۔ یہی کہا جاتا ہے کہ اس کا تو کوئی سوشل سرکل ہی نہیں۔ یہ تو سمجھو نکما ہے اور اس سے ہمارا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ ہاں البتہ امیر آدمی کے دور پرے کے عزیزوں کا بھی بس نہیں چلتا کہ کسی طرح اسے اپنا سگا خون ثابت کردیں۔
یہ ہمارا دہرا رویہ ہے اور ہم اس پر شرمندگی کے بجائے فخر محسوس کرتے ہیں۔ ایک طرف تو ڈینگیں ماری جاتی ہیں اور دوسری طرف جب آپ کے رشتے دار کام نہیں کرتے تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تو بہت مغرور ہوگیا ہے۔ اس نے تو اپنی اوقات ہی بھلا دی ہے۔ ہمارے جاننے والوں کے سامنے ہماری بے عزتی کروا دی۔ اس میں تو انسانیت ہی ختم ہوگئی ہے۔
اعلیٰ عہدے پر فائز شخص کی اصلیت بھی اسی وقت کھل کر سامنے آتی ہے جب اسے کوئی رتبہ مل جائے۔ وہ اپنے قریبی رشتے داروں سے بھی منہ موڑنے لگتا ہے۔ ان سے ملنے میں ہتک محسوس کرتا اور حیلے بہانے کرتا ہے۔ کیونکہ اس کو یہ علم ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے عزیزوں سے کوئی فائدہ تو ملنا نہیں، اس لیے ہمیں خود سے بڑے افسران کی چاپلوسی کرنی چاہیے تاکہ ہماری ترقی ہو اور وہ ہم سے خوش ہوں۔ اس طرح گویا کرپشن کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔
میں سفارش کے حق میں نہیں لیکن اگر کوئی شخص بااختیار ہو تو میرے خیال کے مطابق اسے میرٹ پر آنے والے افراد کےلیے گنجائش پیدا کرنا چاہیے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ خاندان میں ہی نوکریوں کی بندر بانٹ شروع کردو۔ جیسے وہ پنجابی محاورہ ہے ’’انا ونڈے ریوڑیاں تے مڑ مڑے دیوے اپینڑیاں نوں‘‘ ( یعنی جو بندہ بااختیار ہو اور اقربا پرور بھی تو وہ سب اہم عہدوں پر اپنے رشتے دار بھرتی کرلیتا ہے) لیکن اگر خاندان کے افراد میں صلاحیت ہو اور وہ لوگ بھی میرٹ پر پورا اترتے ہوں، حق دار بھی ہوں، تو ان کی بھی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔
اسی طرح عزیز و اقارب کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کےلیے بھی بہت سی حدود و قیود ہوتی ہیں، جن کا انھیں ہر صورت خیال رکھنا ہوتا ہے۔ ضابطے اور قوانین ماننا پڑتے ہیں۔ بعض اوقات سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے لیکن ہم ان کے بارے میں بدگمانیاں پال لیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کتنے ہی ہمدرد کیوں نہ ہوں اور مصروفیت کی بنا پر آپ کو وقت نہ دے پا رہے ہوں اور آپ اس چیز کو ان کی اکڑ سے تعبیر کررہے ہوں۔
اب ہمیں معاشرے میں نئی روایت ڈالنی ہے۔ اپنے غریب و نادار رشتے داروں، دوستوں کے ساتھ تعلق ظاہر کرنے میں کسی قسم کی شرم محسوس نہیں کرنا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بااختیار لوگوں کے پیچھے نہ بھاگیں بلکہ گمنام لوگوں کو بھی شناخت دیں۔ صرف عہدے کو سلام نہ کریں بلکہ گمنام افراد کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلیں تاکہ یہ گمنام کہیں اندھیروں میں کھو کر بند گلی کے مسافر نہ بن جائیں۔