مصنف: شفقت اللہ مشتاق
دوہزار بائیس کا سورج بےشمار واقعات اور حادثات کے آنکھوں دیکھے حالات اپنے دامن میں لے کر ڈوب چکا ہے۔ انسان کی یہ خوبی ہے کہ وہ آگے دوڑ پیچھے چوڑ پر یقین رکھتا ہے اسی لئے نیو ایئر نائٹ کے جا بجا چرچے ہیں، رقص وسرود کی محفلیں سجائی جا رہی ہیں تھوک کے حساب سے دعوتیں ہو رہی ہیں اور وہاں بھی گل چھڑے اڑائے جارہے ہیں بلکہ غل غپاڑے اور پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے چوکس دستوں کی کارروائیاں اور پھر الیکٹرانک میڈیا میں بریکنگ نیوز ہائے اور پریس میڈیا کی شہ سرخیاں یہی لمحات ہیں جب 2023 طلوع ہوا چاہتا ہے۔ نئے سرے سے دھماکوں کا آغاز، ملکوں ملکوں جمہور کی طرح طرح کی آواز، حکومتوں کے ٹوٹنے اور نئے سرے سے بننے کے قصے کہانیاں، طاقتوروں کی ریشہ دوانیاں اور من مانیاں اور کمزور ممالک کے نام نہاد انقلابی حکمرانوں کی اقوام متحدہ میں جوشیلے انداز میں للکار اور اپنے حقوق کے حصول کے لئے پکار لیکن سب کچھ بیکار۔ “ڈاہڈا” ہی کھل کر کھیلے گا اور ایمپائر فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار۔ اتنی دیر میں بے شمار شکار کیے جا چکے ہوں گے۔ ویسے انسانیت غربت کا شکار ہے بلکہ دہشت گردی کا شکار،بیماریوں کا شکار،جہالت کا شکار، توسیع پسندی کے جذبات کا شکار، تیل کے بحران کا شکار، ماحولیاتی آلودگی کا شکار، بجلی اور گیس کے بحران کا شکار،مہنگائی کا شکار، کووڈ اور ڈینگی کا شکار۔ نفرت، حسد اور استحصال کا شکار۔ اتنے شکار اف اللہ۔ شکاری تو ان حالات میں انتہائی نڈر اور بے باک ہوگیا ہوگا اور بے چاری انسانیت ان سارے حالات کا شکار ہے
مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/gehri-soch-bechar-ki-zarurat/
پاک سر زمین کے باسیوں کے چہروں پر اگر نظر ڈالی جائے تو گویا بقول پیر نصیر الدین نصیر زمانہ بیت گیا ہے ہم کو مسکرائے ہوئے۔1947 سے 2022 تک ایک ہی نوعیت کے واقعات کا تسلسل۔ ہندوستان کی جارحیت، پاکستان کا منہ توڑ جواب، کشمیری مسلمانوں پر مظالم، اقوام متحدہ میں کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کا پاکستان حکومت کی طرف سے بھر پور مطالبہ اور صورتحال جوں کی توں۔ امریکہ کا ہماری معیشت کو بہتر بنانے کا بھرپور عزم اور ہمارا ان سے برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کا عہد۔ ہماری معاشی صورتحال پر ہم روز آنسو بہا کے سوجاتے ہیں اگلی صبح ڈالر آسمان سے باتیں کرنے لگتا ہے اور اس کے مقابلے میں ہمارا روپیہ ٹکا ٹوکری ہوجاتا ہے۔ بنگلہ دیش کا ٹکا روز بروز پٹ سن سے توانائی حاصل کرتا ہوا ہمارا منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔ہماری سٹاک ایکسچینج روزانہ کی بنیاد پر چڑھ اور اتر رہی ہوتی ہے اور ہمارے سفارتی وفود اور معاشی ماہرین آئی ایم ایف سے اپنے خیالات ایکسچینج کررہے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں راتوں رات سیاسی پارٹیاں بنتی ہیں اور سنورتی ہیں اور سیاستدان بن سنور کر ایک پارٹی سے نکل کر بوجہ ملکی مفاد دوسری سیاسی پارٹی میں داخل ہوتے ہیں اور اسی طرح دنیائے سیاست میں حکومتیں آتی جاتی ہیں تاکہ اقتدار کے تالاب میں سکوت کی وجہ سے تعفن کا احساس نہ ہو۔ متمول طبقہ غریب عوام کے روشن مستقبل کا خواب دیکھتا ہے اور فرزندان عوام آوے ای آوے کے نعرے لگا کر اپنے نام نہاد خیر خواہوں کے اقتدار میں آنے کے راستے ہموار کرتے ہیں اور اس سارے منظر میں راستے صاف بتاتے ہیں کہ استحصالی ٹولہ آوے ای آوے۔ایوانوں میں درد دل رکھنے والے سیاستدانوں کی آوازوں کی گونج جب ووٹرز کے کانوں پر پڑتی ہے تو لانگ مارچ کی ساتھ ہی کال دے دی جاتی ہے۔ ویسے اوپر سے بھی کال آجاتی ہے اور پھر شعلہ بیانیاں اور مقتدر طبقے کی من مانیاں اور عوام کی بے زبانیاں۔ الزام تراشی، دشنام طرازی، غیبت،گالی گلوچ، طعنہ زنی، بدزنی وغیرہ وغیرہ۔ چور مچائے شور اور چور چور کے نعرے تاکہ اس شور شرابے میں کسی کو کچھ نہ سنائی دے اور نعروں کی گونج سے مٹی اڑانا تاکہ کچھ دکھائی بھی نہ دے۔ دو متحارب قوتیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لئے ہر گز ہر گز تیار نہیں ہیں اور ان لمحات میں ایک نئی آواز کا ہر کان پر پڑنا،”مٹی ڈالو جی مٹی ڈالو”۔ یوں سارے واقعات پر مٹی پڑگئی ہے اور ساری دنیا میں ہماری مٹی پلیت ہوگئی ہے۔ اب دنیا میں ہم پر اعتماد بھی کوئی نہیں کرتا ہے۔ ہماری کوئی بات بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہمیں قرضے بھی ناک سے لکیریں نکلوا نکلوا کر دیے جاتے ہیں اور پھر قرضے کی ادائیگیوں کے لیے من مانی شرائط کے کاغذوں پر دستخط کروا لیے جاتے ہیں یوں ہم نے خود برضا و رغبت اپنے ہاتھ کاٹ کر دے دیے ہیں اوپر سے ہمارے معاشی حالات ناقابل بیان ہیں۔ ویسے زبانی کلامی ہم نے کشکول توڑ دیے ہیں غلامی کی ساری زنجیریں بھی توڑ دی ہیں اور نعرہ جہاد اس انداز سے لگایا ہے کہ صاحب حیثیت ممالک کے کافر حکمرانوں نے ہمارے فون سننے بند کردیے ہیں۔ اب ہم نے اللہ تعالٰی سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ آپ ہی ہمارے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دیں۔ ندا آئی اوپر دیکھ ہم نے بند ہی کب کیے تھے تو اخلاقی طور پر اتنا گرگیا ہے کہ تجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ افسوس انہیں حالات واقعات کے سیل رواں میں 2022 بھی گزر گیا ہے اور اس وقت ہم ایک دوسرے سے مکمل بدظن ہو چکے ہیں اور ہم نے ایک دوسرے سے مذاکرات کے دروازے بھی بند کردیے ہیں۔
مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/quaid-e-azam-aur-aj-ka-pakistan/
کاش آج ہم دل کے دروازے کھلے رکھتے تو انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹتے اور گورے کالے، چھوٹے بڑے اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر کے سارے بت پاش پاش ہو چکے ہوتے۔ اقوام متحدہ ہم سب کو متحد رکھنے میں فعال کردار ادا کررہا ہوتا۔ چین اور امریکہ کی ست اکونجا کبھی نہ ہوتی۔ بوسنیا، کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کا ناحق خون نہ بہایا جاتا۔ اسلحہ ساز ممالک پوری دنیا میں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے آگ نہ لگاتے۔ امریکہ افغانستان، عراق اور یوکرائن جیسے ممالک میں وحشی درندوں کی طرح حملہ آور نہ ہوتا۔ امت مسلمہ کے اکابرین ہوش کے ناخن لیتے اور برادران یوسف کا ایک دوسرے کے خلاف کردار ادا نہ کرتے بلکہ مواخات مدینہ کے ماڈل پر سب ایک دوسرے کو گلے لگا کر دشمنوں کے دانت کھٹے کردیتے۔ پاک سر زمین پر ہرروز ایک نیا تجربہ نہ کیا جاتا اور نہ ہی ایک دوسرے کو ابا تبا بول کر غیروں کو دوش دیا جاتا۔ اے ساکنان پاکستان اب بھی وقت ہے ہم اپنے رویے درست کریں۔ ماضی سے سبق سیکھیں۔ اپنی جیب ضرور بھریں لیکن اپنے ملک کی خالی تجوری کا بھی خیال رکھیں۔ باہر پیسہ بھیج کر سرمایہ کاری کریں لیکن باہر سے سرمایہ لانے والوں کو پرامن ماحول مہیا کریں۔ اداروں کے خلاف زہر اگلنے سے پہلے یہ ضرور سوچیں کہ داخلی اور خارجی معاملات کے حل کا انحصار ان اداروں کے استحکام سے وابستہ ہے۔ اسی طرح سربراہان ادارہ جات کو یہ بات ذہن نشین رکھنا ہوگی ادارے عوام کی حفاظت اور فلاح و بہبود کے لئے معرض وجود میں آتے ہیں۔ سیاسی قیادت میں کو مار کر منج کرنے کی کوشش کرے اور پھر سازش کے امکانات مستقل بنیادوں پر ختم کیے جا سکتے ہیں۔ مہنگائی پر کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری ضرور ہے لیکن ہم نے خود جو ٹوکے پکڑے ہوئے ہیں ان کو بھی دکانوں سے پھینک باہر کرنا ہوگا۔ پاکستانی قوم کی تعمیر وترقی کے لیے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ قربانی دینے کی ضرورت ہے۔ مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ کینہ پروری اور کنبہ پروری سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے ماضی کے معاملات پر غیر ضروری توانائیاں حرام کرنے کی بجائے آگے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آج بے لوث اور متحرک قیادت کی ضرورت ہے اور آج مضبوط پاکستان کی ضرورت ہے۔ آؤ پاکستان سے ٹوٹ کر پیار کریں تب 2023 کی خوشگوار صبح طلوع ہوگی۔