تحریر: شفقت اللہ مشتاق
چند روز قبل میں ایک پہاڑی کے پاس سے گزرا تو میرے دل نے اس کی چوٹی سر کرنے کوچاہا۔ ویسے میں چوٹی کاڈرپوک آدمی ہوں۔ کاہل اور سست بھی ہوں۔ عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں اکثر اوقات انسان کے گوڈے گٹے جواب دے جاتے ہیں اور انسان اپنی اوقات میں آجاتا ہے۔ اس ساری صورتحال کے باوجود میں دل کے ہاتھوں مجبور ہوگیا اور میں نے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کیلئے پگڈنڈی کے ذریعے سے اپنے سفر کا آغاز کردیا۔ زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ میرے ہاتھ پاؤں پھولنے شروع ہوگئے اور میں نے اوپر جانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کردیئے۔ اچانک چڑھائی میں سلوپ ختم ہوئی سیدھا چڑھنا پڑا۔ پاؤں ڈولنے لگے اور میں نے پیچھے مڑکر دیکھا مجھے چکر آگیا ارد گرد پودوں کو جکڑ کر اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ بیچارے چھوٹے چھوٹے پودے اکھڑ کر میرے ہاتھ میں آگئے اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا اور ماتھے پر پسینہ بلکہ تریلیاں آنے لگ گئیں اور اس دل نامراد پر ٹھیک ٹھاک غصہ۔ غصے میں انسان کچھ بھی کر سکتا ہے۔ بہرحال میں نے تو دل سے منہ موڑ کر دماغ پر زور دیا اور دماغ نے مشورہ دیا کہ پیچھے مڑ کر مت دیکھو آگے بڑھتے چلے جاؤ پھر تو میں نے پاؤں کے بل رینگنا شروع کردیا اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے آگے بڑھتا چلا گیا۔ حوصلے ہمت اور استقامت وہ ٹولز ہیں جو ایسے حالات میں وٹامن کا کام دیتے ہیں تاہم نظر خدا پر رکھنا پڑتی ہے اور صراط مستقیم پر چلنا ہی منزل کے قریب کردیتا ہے۔ اس کوہ قاف کے سفر کے دوران میں نے کئی جگہوں پر رک کرسانس بھی لیا اور کچھ سائنس کے کلیوں پر انحصار بھی کیا۔ کسی نہ کسی پر تو انحصار کرنا ہی پڑتا ہے سب سے لڑ کر بندہ نفسیاتی مریض تو بن سکتا ہے اس کا کامیاب ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ ابھی تو میں نے پہاڑی کی چوٹی کو سر کرنا ہے اور میرے اعصاب جواب دے گئے ہیں۔ حوصلے پست ہوگئے ہیں۔ ان اعصاب کا تو میں نے بھی اچھا خاصا بندوبست کیا اور سوچ کی دنیا میں جا کر ان کی ٹھیک ٹھاک چھترول کی اور ٹکا کے لعن طعن کی۔ جس کے نتیجے میں میری غیرت جاگ گئی اور میں نے سر نیچا کیا چھاتی اونچی کی اور پیروں پر زور دیا اور اوپر کی جانب نیواں نیواں ہوکر چڑھنا شروع کردیا پھر تو میں تھا،پر خطر راستہ تھا اور آگے منزل تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے منزل ہمارے پاؤں تلے آگئی اور میں نے سکھ کا سانس لیا۔ دشوار گزار راستوں سے گزر کر منزل پر پہنچنے کا مزہ ہی اور ہے۔ کاش انسان ارد گرد دیکھنا چھوڑ دے اور نظر اپنی اگلی منزل پر رکھے تو وہ ایک نہ ایک دن چاند پر قدم رکھنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ جو زمانے میں ہمت نہ ہارے اپنی تقدیر خود جو سنوارے اس جہاں میں اسی کے ہمیشہ کامیابی قدم چومتی ہے۔
کامیاب زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کی ذات کا کلی جائزہ لیا جائے اور عقلی اور منطقی لحاظ سے اپنے ہم زاد سے کھل کھلا کے بحث کی جائے اپنی بات کو اہمیت ضرور دی جائے لیکن اپنے آپ کو عقل کل نہ سمجھا جائے۔ مخاطب کی بات کو غور سے سنا جائے اور اس کی باتوں کا اپنی باتوں کے ساتھ تقابلی جائزہ کروایا جائے پھر تو سوچ کی سٹاک ایکسچینج میں روزبروز انسان کی قیمت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور کوئی یوسف اٹی کے مل نہیں بکے گا بلکہ انصاف کے تقاضے بھی پورے ہونگے اور انصاف کو خریدنے کی کوشش کرنے والے کو حق کی دنیا سے دھکے مار کر باہر نکال دیا جائیگا۔ اے انسان اس وقت کو یاد کر جب تجھے جنت سے نکال دیا گیا تھا اور پھر مسجود ملائکہ کی عرش پر مٹی پلید ہوئی تھی اور وہ فرش پر آکر مٹیو مٹی ہوگیا تھا۔ ہوا اور پانی مٹی کے ساتھ تعاون نہ کرتے تو انسان کی رہی سہی کسر بھی نکل جانی تھی۔ ویسے اس کے انا کے غبارے سے اس کی زندگی میں کئی دفعہ ہوا نکلی ہو گی لیکن وہ پھر بھی باز نہیں آتا اور پھر بالآخر اس کی جان چلی جاتی ہے۔ اور فطرت نے اپنا مبنی برحقائق فیصلہ سنا کر انصاف کا بول بالا کرنا ہوتا ہے۔ عالم بالا اور عام زیریں کی کہانی میں کوئی اتنا بڑا فرق نہیں ہے۔ جیسا یہاں بوو گے ویسا ہی وہاں کاٹو گے۔ بونے اور کاٹنے کے درمیانی وقت کی حساسیت کا اندازہ لگانا ہی دانائی ہے اور اس سارے نظام کی کامیابی کا انحصار بینائی پر ہے۔ اندھے کے ہاتھ میں استرا دے کر فائدے کی امید نہ رکھی جائے۔ موجودہ صورتحال پر گہری نظر رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور وقت قربانی مانگتا ہے۔ آگے بڑھ کر قربانی دینے والے ہی تاریخ کی کتابوں کے ہر ہر صفحے پر اپنا نام رقم کرواتے ہیں اور وقتی مفاد کی خاطر ہر دو نمبر چیز کو سینے لگانے والے شیطانی قوتوں کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں اور ان پر فطرت کے سارے کردار دل کھول کر طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ یوں رحمانی اور شیطانی قوتوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہوتی ہے۔ بالآخر سرخرو رحمانی قوتوں نے ہی ہونا ہوتا ہے۔
زندگی کی پگڈنڈی پر سسی تسی ہونے کی وجہ سے مرگئی تھی۔ ہیر کو غیرت کی زہر دے کر مار دیا گیاتھا اور صاحباں کو طعنے دے دے کر ویسے ہی ماردیا گیا تھا۔ میں وہ خوش قسمت ہوں جس کو پگڈنڈی کے وسیلے منزل مل گئی ہے اور میں زندگی کی چوٹی سر کرچکا ہوں میرے ارد گرد ساری کائنات ہے اور میں اس کو روز انٹرنیٹ کی طاقت سے دیکھتا ہوں۔ اب مجھ پر ہے کہ میں اس سارے منظر نامے میں اپنے آپ کو کیسے ایڈجسٹ کرتا ہوں اور مجھے اس بات کا بھی علم ہونا چاہیے اگر میں غل غپاڑہ کرتا ہوں تو مرتا ہوں۔ ہر کے اوپر ایک ہر ہے اور اوپر والا ہی اصل طاقتور ہے۔ زیر اور زبر کی اصل کہانی ہے۔ اور کہانی کا کینوس حساس نوعیت کا بھی ہے اور وسیع بھی ہے۔ اس کہانی کے ہر کردار کو پڑھانا اور سکھانا پڑتا ہے تب جا کے دنیا کے بناؤ سنگھار میں حضرت انسان اپنا بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔ شور شرابہ، گالم گلوچ، افراتفری،ناامیدی و مایوسی، الزام تراشی، دروغ گوئی اور ہلہ گلہ کی منفی مارکنگ ہے۔ البتہ بیٹھ کر بات کی جا سکتی ہے اور بات سے بات نکال کر اپنی بات بنائی جاسکتی ہے۔ گیم جیت کر بلبلیاں مارنے اور گیم ہار کر بڑھکیں مارنے کا بالکل وقت نہیں ہے۔ ویسے بھی ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ اعدادو شمار سیدھے کرکے ہم دنیا کے ممالک میں کسی شمار میں آسکتے ہیں نہیں تو کاسہ ہے بھیک ہے اور ہم ہیں۔ ہم ویسے تو غیرت مند لوگ ہیں حسب ضرورت مصلحت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مصلحت اور مصالحت میں بڑا فرق ہے۔ کاش یہ بات ہمیں کوئی آکر سمجھا دیتا تو گول میز کانفرنس کا انعقاد آج بھی ہو سکتا ہے اور ہماری معیشت آج بھی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ فہم و فراست کا تقاضہ ہے ہم اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہ ماریں اور جس کا جو جو حق ہے اس کی پائی پائی ادا کردی جائے۔ ریاست اور شہری دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں تو ملک دشمن عناصر کے آج بھی ہاتھ توڑے جا سکتے ہیں۔ بہرحال آج کا دن اہم ہے اور ہم سب نے آج کے دن کچھ عہد کرنے ہیں وہ کون سے عہد ہیں اس بارے میں گہری سوچ بچار کی ضرورت ہے۔