Premium Content

آپ نے کتنے بندے مارے ہیں؟

Print Friendly, PDF & Email

مصنف :    ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی

لکھاری نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں۔

ایک ڈاکٹرصاحب بہت اعلیٰ درجے کے سرجن تھے۔ پیچیدہ آپریشن کرنے کے ماہر تھے۔ اُن کی مہارت کا چرچا دور دور تک تھا۔ کافی عرصہ سے سرکاری ہسپتال میں تعینا ت تھے۔ وقت آنے پر پرنسپل بن گئے۔حس مزاح نہایت اعلیٰ درجے کی تھی۔ بہت اُصول پرست تھے۔ غیرقانونی کام قطعاً نہ کرتے تھے۔ ایک دن ایک صاحب ان کے دفتر تشریف لائے۔ صاحب نے ایک کام کہا۔ ضابطے کے مطابق کام نہ کیاجاسکتاتھا۔ سائل پہلے سلجھے ہوئے لہجے میں کام کرنے کی درخواست کرتے رہے۔بہت  اصرار کیا۔ پرنسپل صاحب کے مسلسل انکار پر غصے میں آگئے۔ دھمکانے لگے۔ کہنے لگے ”آپ مجھے جانتے نہیں ہیں۔ میں اپنے علاقے کامشہور بدمعاش ہوں۔ میں نے قتل کیے ہوئے ہیں“۔ پرنسپل صاحب کو بھی غصہ آگیا۔ باآواز بلند کہنے لگے ”آپ نے کتنے قتل کرلیے ہونگے۔؟ میں سرجن ہوں۔ روز ممکن نا ممکن آپریشن کرتاہوں۔ بہت سارے آپریشنز میں لوگ جان سے جاتے ہیں۔تمیز سے بات کریں۔یاد رکھیں میرا اسکور آپ سے زیادہ ہی ہوگا“۔

         ایک سری لنکن طالب علم طب کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے پاکستان آئے۔نشترمیڈیکل کالج میں داخلہ ہوگیا۔ اُن کے ہم جماعت اور کمرے میں ہم نشین ساتھی ”جھنگ“ کے رہنے والے تھے۔ ہمارے جھنگ کے بھائی کااخلاق بہت اچھاتھا۔بہت ہی نرم دل، نرم طبیعت اورخوش اخلاق تھے۔ مذاق کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ سری لنکن ڈاکٹر صاحب جھنگ والوں کی حس مزاح کے بہت قائل تھے۔ ایک دن گھاہل بھی ہوگئے۔ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ہمارے سری لنکن دوست شام کو ناک، کان، گلا کے ماہر پروفیسر صاحب کے پاس اُن کے ہسپتال پر جانے لگے۔  وہ مستقبل میں اسی شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کاارادہ رکھتے تھے۔ دونوں دوست ابھی تک اکٹھے رہ رہے تھے۔ ایک دن سری لنکن ڈاکٹر صاحب رات کو ہسپتال سے واپس آئے تو بے تحاشاہنس رہے تھے۔ ہنسی کنٹرول نہ کرپارہے تھے۔ جھنگ والے بھائی کے پوچھنے پر بتایا ”آج ہسپتال میں ڈاکٹر صاحب مریضوں کاحسب معمول معائنہ کررہے تھے۔ وارڈبوائے نے نمبرایک پکارا تو ایک نمبروالامریض اندرچلا گیا۔ اُس کے معائنہ کے بعد وارڈ بوائے نے نمبر دو پکارا۔ کوئی نہ اُٹھا۔ اس نے دوبارہ نمبردوپکارا۔  پھر بھی کوئی نہ اُٹھا۔ اُس نے تیسری بار بھی نمبردو پکارا۔ تب بھی کوئی نہ اُٹھا۔ وارڈ بوائے نے تین نمبرپکارا تو تین نمبروالا مریض اندرجانے لگا۔ دور کہیں سے ایک صاحب بجلی کی سی تیزی سے اُٹھے۔ وارڈ بوائے کو کندھے سے پکڑ کرنہایت غصے سے کہنے لگے ”میرے نمبرپر آپ کسی اور کیسے بھیج سکتے ہیں“؟۔  وارڈ بوائے نے وضاحت کی ”میں نے تین بار آپ کا نمبرپکارا ہے۔ آپ نہیں آئے تو میں نے آپ کے بعد والا نمبرپکارا ہے“۔مریض نے نہایت غصے اور افسوس سے جواب دیا ”اگر میرے کان ٹھیک ہوتے، مجھے صحیح سنائی دیتا تو مجھے جھنگ سے ملتان تک کاسفر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ عقلمند انسان! میں تو یہاں آیا ہی اپنی سماعت میں کمی کے نقص کاعلاج کروانے ہوں“۔

         ایک سینئرپروفیسر صاحب زیر تربیت ڈاکٹروں کے معیارسے کافی تنگ تھے۔  وہ اپنے شعبے میں بہت اعلی مقام رکھتے تھے۔ لوگ دل سے اُن کی عزت کرتے تھے۔ ہزاروں مریضوں کو ٹھیک کرچکے تھے۔ عمر کے اس حصے میں تھے جب ریٹائرمنٹ قریب تھی۔ ایک دن ساتھی ڈاکٹر کے ساتھ نئے آنے والے طالب علموں کو پڑھا رہے تھے۔ اچانک پڑھانا بند کردیا۔ ساتھی پروفیسر کو کہنے لگے  ”پروفیسر صاحب آپ کو پتہ ہے ہم نے جلدی فوت ہوجانا ہے“۔ پروفیسر صاحب نے حیرت سے وجہ پوچھی تو کہنے لگے ”ہمارے بڑھاپے میں ہمارا علاج ان نئے ڈاکٹروں نے کرنا ہے۔ ان کی قابلیت کا جوعالم ہے مجھے اپنے زندہ رہنے کے زیادہ چانسز نظر نہیں آتے“۔

         ایک ڈاکٹر صاحبہ نہایت نرم دل تھیں۔ایک دن اُن کو ہسپتال کے باہر ایک گداگر ملا۔گداگرکہنے لگا”میری ماں بیمار ہے۔ قریب المرگ ہے۔دوائیاں خریدنے کیلئے پیسے بالکل نہ ہیں۔ پیسے دے دیں یا دوائی خریددیں“۔  ڈاکٹر صاحبہ نے نسخہ طلب کیا۔ نسخہ دیکھ کر ڈاکٹر صاحبہ حیران رہ گئیں۔ اُن کے آنسوبہنے لگے۔ نسخہ اُن کے مرحوم والد صاحب کے ہاتھ کاقلمی تھا۔ اُن کے والد بھی نہایت نرم دل ڈاکٹر تھے۔ دس سال قبل وفات پاچکے تھے۔ ابھی تک لوگوں کوفیض پہنچا رہے تھے۔

         رحیم یارخان کے ایک ڈاکٹر اپنے کام میں بہت ماہر تھے۔ اُن کا تعلق جٹ خاندان سے تھا۔ کٹا ہوا ہاتھ جوڑنے میں بہت مہارت رکھتے تھے۔ ہڈی جوڑ شعبے کے پروفیسر تھے۔ وہ امریکہ چلے گئے۔ وہاں بھی اُن کی مہارت کے چرچے تھے۔ ایک دن اُن کے پاس ایک سکھ مریض لایاگیا۔ انہوں نے نہایت مہارت سے اُس کا علاج کیا اور ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جوڑ دیں۔ مریض کے والد نے اُن سے ملنے کی بہت ضد کی۔ ملاقات پر کہنے لگا ”ہڈیاں توڑنے والے جٹ تو بہت دیکھے ہیں۔ ہر جگہ مل جاتے ہیں۔ ہڈیاں جوڑنے والا جٹ پہلی دفعہ ملا ہے“۔

         ایک صاحب والدین کی خواہش پرڈاکٹر بنے۔ ذہنی طور پر مطمئن نہ تھے۔ میڈیکل کو نہایت قابل اورمحنتی لوگوں کا شعبہ سمجھتے تھے۔ مقابلے کاامتحان پاس کرکے انتظامی افسر بن گئے۔ ایک مقام پر تعیناتی کے دوران انہیں ایک انٹرویو کمیٹی کا ممبر بننے کا موقع ملا۔ کمیٹی نے مقامی ہسپتال کیلئے درخواست دینے والے ڈاکٹروں کے انٹرویو کرنے تھے۔ ایک امیدوار کے جواب سن کر ہمارے افسر اپنی کرسی پربیٹھے نہ رہ سکے۔ اپنی جگہ سے اُٹھے۔ اُمیدوار کو سیلوٹ کیااور کہنے لگے ”ایسا ڈاکٹر دیکھنے کی حسرت تھی جو علمی لحاظ سے مجھ سے بھی پیدل ہو۔ آج آپ نے یہ حسرت پوری کردی۔ ہمیشہ آپ کیلئے دعا گو رہوں گا“۔

         ریڈیالوجی کے ایک پروفیسربہت کم گوتھے۔ کام کی بات کرتے تھے۔ بہت کم مسکراتے تھے۔ کسی نے کبھی اُن کوکھلکھلاکر ہنستے نہیں دیکھاتھا۔ نہایت شفیق انسان تھے مگر بہت سنجیدہ رہتے تھے۔ ایک دن وہ اپنی ہنسی پر قابو نہ رکھ سکے۔کافی دیر ہنستے رہے۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انتہائی رقت آمیز لہجے میں ایک جونیئرڈاکٹرکو کہنے لگے ”فیاضی کی کوئی حد ہونی چاہیے۔ آپ نے مریض کو وہ گردہ عنایت کردیا جو ایک سرجن دو سال پہلے نکال چکے تھے۔ آپ نے اُس گردے میں پتھریاں بھی دیکھ لیں۔ آپ بہت صاحبِ نظر ہیں۔ تھوڑا کرم اپنی ذات پر بھی کریں۔ الٹرساؤنڈ کرنے سے پہلے مریض کی دیگررپورٹس بھی دیکھ لیا کریں“۔

         ایک میڈیکل کالج کے ہوسٹل میں طلبہ کینٹین سے اپنے کمرے میں چائے اوردیگرلوازمات منگواتے رہتے تھے۔ جب کسی طالب علم کے کھاتے میں ایک حد سے زیادہ پیسے ہوجاتے تھے تو کینٹین والے روم سروس بند کردیتے تھے۔ ایک طالب علم کے ذمے کافی ادھار تھا۔ اُن کی روم سروس کافی عرصہ سے بند تھی۔ وہ اپنے ایک مہمان کے ساتھ کینٹین پرآئے۔ کینٹین کا عملہ مروتاًکچھ نہ کہہ سکا۔ جاتے ہوئے کہنے لگے ”پیسے میرے کھاتے میں لکھ دیں“۔ کینٹین کے مالک نے اُن کی بات نہایت تحمل سے سنی اور اپنے منیجر کو کہا ”یہ پیسے بھی کھوہ کھاتے میں لکھ چھوڑو“۔

ایک ڈاکٹر صاحب  ایک ہسپتال میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تعینات ہوگئے۔ ہر وقت اپنے دفتر بیٹھے رہتے تھے۔ کسی وارڈ کا دورہ نہیں کرتے تھے۔ مختلف امراض کے شعبہ جات کے سربراہان اُن کے اس رویے کو بالکل پسند نہ کرتے تھے۔ وہ اُن کو بلا بلا کر تھک گئے مگر ہمارے ڈاکٹر صاحب کسی طرح ہسپتال کا دورہ کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ ایک دن ایک میٹنگ میں شعبہ میڈیکل کے سربراہ نے ایم ایس صاحب سے پوچھا ”آپ نے کب اور کہاں سے تعلیم حاصل کی“۔ ایم ایس صاحب کا جواب سن کر پروفیسر صاحب نے انتہائی حیرت سے کہا ”ہمارا کالج ایک ہے۔ ڈگری میں بھی سال دوسال کا ہی فرق ہے۔ لگتا ہے آپ والا نصاب ہم نے نہیں پڑھا“۔ ایم ایس صاحب نے تفصیل پوچھی تو کہنے لگے ”لگتا ہے جب آپ تعلیم حاصل کررہے تھے تو کسی کتاب میں لکھا تھا کہ دورہ کرنے سے دورہ پڑجاتا ہے۔ یہ بات ہمارے نصا ب میں نہیں تھی“۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos