اپنی ضد چھوڑ دو بیٹا، اک اور منگنی توڑ دو بیٹا



“اپنی ضد چھوڑ دو بیٹا، اک اور منگنی توڑ دو بیٹا”۔ماں کی فرمائش سن کر وہ جھوم اٹھا۔جب سے جوان بلکہ نوجوان ہوا تھا، ماں کا ایک ہی شوق تھا۔ اس کی منگنی کرنا اور پھر توڑ دینا۔اسے بے اختیار ایک شعر یاد آتا تھا:-؎
یوں ہی تنہائی میں ہم دل کو سزا دیتے ہیں
نام لکھتے ہیں تیرا، لکھ کے مٹا دیتے ہیں
والدہ ہمارے ہیرو کو تنہائی میں سزا نہیں دیتی تھیں۔ببانگ دہل منگنی توڑنے کا کہتی تھیں۔ کئی دفعہ تو خود ہی توڑ دیتی تھیں۔ اسے بالکل زحمت نہ دیتی تھیں۔ وہ اگر اپنا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کروانا چاہتا تو کروا سکتا تھا۔اس معاملے میں کوئی مقابل نہیں تھا، دور دور تک۔جب سے بہنوں نے ہوش سنبھالا تھا ،وہ بھی والدہ کے ساتھ شامل ہو گئیں تھیں۔ والد صاحب کو وفات پاۓ عرصہ گزر چکا تھا۔ وہ پہلے بھی والدہ کی نافرمانی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔والد کے انتقال نے اسے مزید ذمہ دار اور فرمانبردار بنا دیا تھا لیکن اب اسے الجھن ہونے لگی تھی۔ آخری منگنی جب ٹوٹی تو سابقہ منگیتر کے کہے ہوۓ لفظ اس کے دل پر نقش ہو گئے ” میں بھی کسی کی بیٹی ہوں، کسی کی عزت ہوں، میرے والدین کی بھی کوئی عزت ہے، میرے بہن بھائیوں کا بھی معاشرے میں کوئی مقام ہے۔آپ کی والدہ اور بہنوں نے تو کھیل بنایا ہوا ہے۔جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں اگر لڑکی کی منگنی ٹوٹ جاۓ تو گھر والے سوالوں کے جواب دیتے دیتے ہلکان ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالی آپ کی بہنوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کرے۔اگر آپ کی شادی ہو جاۓ ،ویسے مجھے نہیں لگتا آپ کی والدہ اور بہنوں کا آپ کی شادی کروانے کا کوئی ارادہ ہے، تو اللہ تعالی آپ کی بیٹیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کرے اور وہ کرے گا۔ وہ انصاف کرنے والا ہے”۔کئی دن اسے ٹھیک طرح سے نیند نہیں آئی۔والدہ اور بہنوں کی مرضی سے اس کی کتنی منگنیاں ہوئی تھیں اور ٹوٹ گئی تھیں، اسے یاد تک نہیں تھا۔ اس نے ایک منگنی پہلے بھی اپنی پسند سے کی تھی مگر وہ بھی تین مہینے ہی چل سکی۔ وہ منگنی تو ڑتے ہوۓ اسے افسوس نہ ہوا ۔ وہ سمجھتا تھا کہ والدہ کی نافرمانی سے بچنا چاہیے۔ عمر بھر والدہ کی نافرمانی سے بچتا بھی رہا تھا۔بہنوں کی خوشی بھی اسے بہت عزیز تھی۔

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com

کہیں پڑھا تھا کہ مذہب انسان کو اپنی مرضی سے جیون ساتھی کے انتخاب کا حق دیتا ہے اور وہ والدہ یا بہنوں کی مرضی سے شادی کرنے کا پابند نہیں۔ شادی کے فیصلہ میں بنیادی فریق وہ خود ہے سو اس کا فیصلہ حتمی ہو گا۔ مشاورت ضروری ہے۔ وہ عجیب دوراہے پہ کھڑا تھا۔ موجودہ منگنی اس نے اپنی دفتری رفیق کار سے کی تھی۔ خاتون حسن سیرت اور حسن صورت میں بے مثل تھی۔ وہ اک مدت سے انہیں جانتا تھا۔ خاندان بھی بہت اچھا تھا۔ والدہ اور بہنوں کا منگنی توڑنے پر اصرار اسے سمجھ نہیں آتا تھا۔ انہیں لڑکی سے مسئلہ نہیں تھا، لڑکی کے گھر والوں کا رویہ مناسب نہیں لگتا تھا۔ وہ ذاتی طور پراپنے ہونے والے سسرال کے رویے سے مطمئن تھا۔ اسے کوئی قابل اعتراض بات نظر نہ آتی تھی۔ نجانے کیوں اسے اپنا ایک ہم جماعت یاد آنے لگا۔واجد کے والد بھی وفات پا چکے تھے۔ والدہ اور بہنیں واجد پہ فخر کرتی تھیں۔واجد کی پہلی منگنی والدہ نے اپنی بھانجی سے کی، توڑ دی۔دوسری بھتیجی سے کی، وہ بھی توڑ دی۔ پھر اپنی ایک دوست کی بیٹی سے نکاح کر دیا۔چھ ماہ گزرے تھے کہ طلاق دینے کی ضد شروع کر دی۔ واجد نے طلاق دینے سے انکار نہیں کیا۔ فقط اتنا مطالبہ کیا کہ اسے تحریری ضمانت دی جاۓ یہ آخری طلاق ہو گی ۔ آئندہ جہاں رشتہ کیا جاۓ گا، نبھایا جاۓ گا۔والدہ کو واجد کی جرات بہت ناگوار گزری۔ واجد بھی اڑ گیا۔ زندگی میں پہلی دفعہ ضد کی اور ضد کو نبھایا بھی۔اپنی منکوحہ کو دوستوں کے ساتھ جا کر گھر لے آیا۔ہمیشہ عزت کی۔والدہ اور بہنیں دوبارہ اسے کبھی نہیں ملیں۔ وہ احترام کرتا رہا مگر اپنے گھر کا سکون کبھی تباہ نہیں کیا۔ وہ واجد نہیں بننا چاہتا تھا لیکن ظالم بننا اسے گوارا نہیں تھا۔اس نے دین کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔وہ والدین کی نافرمانی سے ہر قیمت پر بچنا چاہتا تھا مگر اس کا دل کہتا تھا منگنی کر کے بلاوجہ توڑنا کوئی پسندیدہ بات نہیں۔ وہ سوچنے لگا اگر کوئی اس کی بہنوں کے ساتھ ایسا کرے تو اسے کیسا لگے گا؟اسلامی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات اس پر واضح ہوئی کہ شادی کے معاملے میں خواتین سے نا صرف مشاورت کی جاتی تھی بلکہ ان کی رضامندی سے ہی تمام معاملات طے کیے جاتے تھے۔مر دو زن کی مرضی کے بغیر ، جبری طور پہ شادی کرنا انتہائی غیر اسلامی رویہ ہے۔ارشاد رسول پاک ﷺ کا مفہوم ہے ” بہترین راستہ درمیانی راستہ ہے”۔ہمارے معاشرے سے توازن ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ بسا اوقات اولاد والدین کی خوشی، مرضی، رضا کو اہمیت نہیں دیتی تو یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ والدین خود کو اولاد کا مختار کل سمجھتے ہوۓ نہ کیرئر کے معاملے میں ان سے راۓ لیتے ہیں،نہ شادی کے معاملے میں۔اگر اولڈ ایج ہوم آباد ہوتے جا رہے ہیں تو ایسے خاندانوں کی بھی کمی نہیں جو اپنے بچے بچیوں کو اس لیے عاق کر دیتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کر بیٹھتے ہیں۔بعض علاقوں میں اکیسویں صدی میں بھی خواتین کو کسی طور اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔اسلام توازن کا مذہب ہے، انصاف کا مذہب ہے۔ والدین کے احساسات اگر وقعت رکھتے ہیں تو اولاد کو جو حق اللہ تعالی نے دیا ہے ،اس سے انکار کسی صورت نہیں کیا جا سکتا۔قرآن کی آیت کا مفہوم ہے” تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں”۔ “نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے “غیر شادی شدہ کا نکاح اس سے پوچھے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا بغیر اجازت نکاح نہ کیا جائے”۔ ارشادنبی ﷺ کا مفہوم ہے”جب تمہارے پاس ایسے لڑکے کا رشتہ آئے جس کی دین داری اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو اُس سے (اپنی بیٹی کا) نکاح کرو ، اگر ایسا نہ کروگے تو زمین میں فتنے اور لمبے چوڑے فساد برپا ہوجائیں گے”۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” کسی عورت سے نکاح کرنے کے بارے میں چار چیزوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے: اول: اس کا مال دار ہونا، دوم: اس کا حسب نسب والی ہونا، سوم: اس کا حسین وجمیل ہونا، چہارم: اس کا دین دار ہونا، اس لیے اے مخاطب! تم دیندار عورت کو اپنا مطلوب قرار دو!”۔ ہمارے ہیرو کو لگا اس کی پسند دیندار بھی ہے اور حسب ، نسب والی بھی۔مال دار بھی ہے اور حسین بھی ۔ منگنی توڑنے کا کوئی جواز نہیں۔ وہ ریکارڈ بنانے میں نہیں، گھر بسانے میں دلچسپی رکھتا تھا۔اس نے گھر بسایا، چین پایا، دنیا بھی سنواری، آخرت بھی۔سب کو سمجھ آ گئی کہ جوان جسمانی طور پر ہی بالغ نہیں ہوا، ذہنی طور پر بھی بالغ ہو چکا ہے۔وہ بھی باشعور ہو گئے۔آج کل سب ہنسی خوشی رہتے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos