عدل کا زوال: قانون کی مسند پر لرزتی بنیادیں

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

پاکستان کی عدلیہ ایک عرصے سے ملکی سیاسی اور آئینی نظام میں فیصلہ کن مقام رکھتی ہے، جہاں اسے اکثر قانونی، اخلاقی اور طاقت کے تقاضوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ حالیہ دنوں میں، عدلیہ کا یہ کردار ایک بار پھر شدید تنقید اور توجہ کا مرکز بنا ہے، خاص طور پر سپریم کورٹ کے اُس اہم فیصلے کے بعد جس میں ایک بڑی سیاسی جماعت کو مخصوص نشستوں سے محروم قرار دیا گیا۔ اس فیصلے نے نہ صرف پارلیمانی تشکیل پر اثر ڈالا ہے بلکہ یہ سوال بھی کھڑا کر دیا ہے کہ آیا پاکستان میں عدلیہ سیاسی غیر جانب داری برقرار رکھ پاتی ہے یا نہیں۔

اس فیصلے کو بعض حلقے آئین کی سخت تعبیر اور قانونی ضابطوں کی پاسداری قرار دے رہے ہیں، مگر ناقدین کے نزدیک یہ فیصلہ اُس طرزِ عمل کا تسلسل ہے جس میں قانونی نکات کو سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ چاہے اس کی آئینی توجیہہ کچھ بھی ہو، یہ امر واضح ہے کہ اس فیصلے کے اثرات صرف عدالت کے دائرے تک محدود نہیں بلکہ ان کا دائرہ کار جمہوری نمائندگی اور انتخابی شفافیت تک پھیلا ہوا ہے۔

عدلیہ کی ساکھ صرف اس کی آئینی حیثیت پر نہیں بلکہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنے فیصلوں میں کتنی غیر جانب دار، مستقل مزاج اور سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد رہتی ہے۔ بدقسمتی سے، پاکستان کی عدالتی تاریخ میں عدلیہ نے بارہا طاقتور طبقات کے دباؤ میں فیصلے دیے، چاہے وہ فوجی مداخلت کی توثیق ہو یا کسی منتخب حکومت کی برطرفی۔ اس طرح کے فیصلوں نے عوام میں اس تاثر کو جنم دیا کہ عدالتیں بعض اوقات انصاف کے بجائے سیاسی انجینئرنگ کا آلہ بن جاتی ہیں۔

موجودہ عدالتی نظام ایک طرف عوامی اعتماد کی بحالی کا دعویٰ کرتا ہے اور دوسری جانب خود بھی داخلی دباؤ، میڈیا کے بیانیوں اور سیاسی تقسیم کی زد میں ہے۔ مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ ایک علامتی موقع تھا کہ عدلیہ اپنی غیر جانب داری اور آئینی دیانت داری کا عملی مظاہرہ کرتی، مگر اس کے برعکس یہ تاثر ابھرا کہ عدالت نے ایک تکنیکی نکتہ کو بنیاد بنا کر لاکھوں ووٹرز کی نمائندگی کو پارلیمنٹ سے محروم کر دیا۔ فیصلے کے وقت، رفتار اور استدلال میں جس قسم کی ابہام اور تقسیم نظر آئی، اُس نے عدلیہ کے تاثر کو مزید متنازعہ کر دیا۔

یہ صورتحال صرف قانونی دائرہ کار تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کے نتیجے میں جمہوری ساکھ، پارلیمانی توازن، اور مستقبل کے انتخابی عمل کی شفافیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس تناظر میں ایک بنیادی سوال اٹھتا ہے کہ کیا عدالتوں کو انتخابی عمل کے نتائج پر اس درجے کا فیصلہ کن اثر ڈالنے کا اختیار ہونا چاہیے؟ یا انہیں آئینی حدود میں رہ کر سیاسی مسائل کا حل سیاست دانوں پر چھوڑ دینا چاہیے؟

پاکستان کی عدلیہ کو درپیش چیلنجز کا حل صرف وقتی بیانات یا فیصلوں میں نہیں بلکہ ایک وسیع تر عدالتی اصلاحات میں ہے۔ ان اصلاحات میں ججوں کے تقرر کے عمل کو شفاف اور میرٹ پر مبنی بنانا، داخلی احتساب کو مؤثر بنانا، ازخود نوٹس (سوموٹو) کے اختیار کو محدود اور ضابطہ کار کے تحت لانا، اور عدالتی نظام میں تاخیر کا خاتمہ شامل ہونا چاہیے تاکہ عام شہری کو بروقت انصاف مل سکے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ عدلیہ کو سیاست کی ترتیب و تنظیم کا حصہ بننے کے بجائے آئینی اصولوں کی محافظ بننا ہوگا۔ اس کا کردار یہ نہیں کہ وہ سیاسی قوتوں کو کنٹرول کرے، بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ قانون کے اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنائے۔ اس کے لیے عدلیہ کو اپنی ثقافت میں تبدیلی لانا ہوگی—اختیار سے اصول کی جانب، وقتی مصلحت سے مسلسل دیانت کی طرف، اور علامتی مظاہر سے اصل انصاف کی طرف۔

سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ آئینی نظیر بن سکتا ہے، لیکن اس کی جمہوری قیمت عوامی اعتماد کے زوال یا بحالی کی صورت میں سامنے آئے گی۔ عدلیہ کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ ایسا ورثہ چھوڑے جو تنازع کا نشان نہ ہو بلکہ قانون، عوام اور انصاف کے بلند اصولوں سے جڑا ہوا ہو۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos