Premium Content

عوام کا پاکستان یا خواص کا؟

Print Friendly, PDF & Email

عبدالغفور چوہدری

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین مجریہ 1973میں ہمارے ملک کے لیے پارلیمانی جمہوریت کا نظام تجویز کیا گیا ہے۔جس کے مطابق ملک عزیز میں عوام کی حکومت ہو گی، عوام میں سے ہو گی اور عوام کے لیے ہو گی۔

لیکن ہمارے یہاں عملی طور پر جو بھی حکومت آتی ہے وہ ہمیشہ سے خواص کی حکومت ہوتی ہے، خواص ہی اسے منتخب کرتے ہیں اور وہ خواص کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے۔خواص سے مراد وہ چند خاندان ہیں جو پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لے کر آج تک کسی نہ کسی صورت میں اقتدار پر قابض ہیں اورملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com

ہمارے آئین کے آرٹیکل (1)17 کے مطابق ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ سیاسی پارٹی بنائے یا اس کا رکن بنے۔آرٹیکل (4)17 کے مطابق ہر سیاسی پارٹی کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے عہدے داروں کے لیے اپنی پارٹی کے اندرانتخابات کروائے۔پولی ٹیکل پارٹی آرڈر2022 کی شق (2)12 کی رو سے ہر سیاسی پارٹی کے لیے ضروری ہے کہ وہ مرکز، صوبائی اور لوکل سطح پر عہدیداران کا انتخاب کروائے۔اس کی شق نمبر(1)13 کی رو سے یہ انتخابات خفیہ رائے دہی کے تحت ہوں گے۔شق نمبر (2) 13 میں الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ تمام سیاسی پارٹیوں کے انٹرا پارٹی انتخابات کی مانیٹرنگ کرے۔

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com

اب ہم وطن عزیز کی بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کے اندر کی جمہوریت کے احوال کو ملاحظہ کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان 26 اگست 1941 کو قائم ہوئی۔جناب سید ابو الا علیٰ مودودی 1941 تا 1972 جماعت کے امیررہے۔

ان کے بعد میاں طفیل محمد صاحب1972 تا1987، قاضی حسین احمدصاحب 1987 تا2009،سیدمنور حسن شاہ صاحب 2009تا2014 ،مولاناسراج الحق صاحب 2014 تا2024 اس جماعت کے منتخب امیر رہے اوراب حافظ نعیم الرحمٰن صاحب اس کے امیر ہیں، جمعیت علمائے اسلام مورخہ 26 اکتوبر 1948 کو قائم ہوئی، مولانا مفتی محمود صاحب 1948 تا 1980اس کے صدر رہے۔ ان کی رحلت کے بعد ان کے بیٹے مولانا فضل الرحمٰن صاحب 1980  تا دم تحریر اس جماعت کے صدر ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی مورخہ 3نومبر 1967 کو قائم ہوئی، جناب ذوالفقار علی بھٹو1967 تا 1979 اس کے چیئرمین رہے،ان کی شہادت کے بعد ان کی بیگم محترمہ نصرت بھٹو صاحبہ 1979 تا 1993، ان کے بعد ان کی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ 1993 تا 2007 پارٹی کی چیئر پرسن رہیں۔ 

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com

محترمہ کی شہادت کے بعد جناب بلاول بھٹو زرداری جو محترمہ کے بیٹے  ہیں 2007 سے پارٹی کے چیئرمین کے عہدے پر قائم ہیں، ایم کیو ایم مورخہ 28 مارچ 1984 کو قائم ہوئی۔ جناب الطاف حسین، 1984 تا 2016  یعنی اپنی جلاوطنی تک اس عہدے پر براجمان رہے۔، جناب  فاروق ستا ر 2016 تا 2018 اس عہدے پر قائم رہے اورجناب خالد مقبول صدیقی 2018 تا حال اس جماعت کے کنوینر ہیں،پا کستان مسلم لیگ (ن)مورخہ 27 جولائی 1988 کو قائم ہوئی، میاں محمد نواز شریف 1988 تا 1993 اس کے صدر رہے۔

پھر ان کے چھوٹے بھائی میاں محمد شہباز شریف 1993 تا 1996 جماعت کے صدر، پھرجناب میاں محمد نواز شریف  1996 تا 1999 جماعت کے صدر رہے۔پھر بیگم محترمہ کلثوم نواز صاحبہ 1999 تا 2002 عہدہ صدارت پر براجمان رہیں، میاں محمد نواز شریف صاحب پھر سے 2002 تا2011  اورمیاں محمد شہباز شریف 2011 تا 2024 جماعت کے صدر رہے۔ اب پھرمیاں محمد نواز شریف اس جماعت کے صدر ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف مورخہ 25 اپریل 1996 کو قائم ہوئی، جناب عمران خان 1996 تا2023 اس کے چیئرمین رہے، ان کی نااہلی  کے بعد بیرسٹر گوہر علی خان 2023 تا حال اس کے چیئرمین ہیں۔ اگر عمران خان صاحب کو عدالت نا اہل نہ کرتی تو یقینا وہی اب تک پارٹی کے چیئرمین ہوتے۔

تحریک لبیک پاکستان مورخہ 22 جولائی 2015 کو قائم ہوئی، جناب علامہ خادم حسین رضوی  2015 تا 2020 اس کے امیر رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے سعد حسین رضوی 2020 تا حال جماعت کے امیر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

مندرجہ بالاحقائق سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سوائے جماعت اسلامی پاکستان کے ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت کے اندر جمہوریت نہیں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے لے کر تحریک لبیک پاکستان تک جماعتوں کی سر براہی ایک ہی خاندان کے افراد کے گرد گھوم رہی ہے۔

کیا ان جماعتوں میں قحط ا لرجال ہے کہ کوئی ایک بھی سیاستدان پارٹی کا سربراہ بننے کے قابل نہیں؟ اب توحالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمارے بزرگ، تجربہ کار اور سینئرسیاستدان اقتدار کی خاطراپنے بچوں سے بھی چھوٹے اور نا تجربہ کار پارٹی سربراہان کی ہر سچی جھوٹی بات پر واہ واہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کوئی سیاستدان ایسے گھٹن شدہ ماحول میں آواز اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے ایک مثال بنا دیا جاتا ہے۔کیا اسی کا نام جمہوریت ہے؟ کیا ہمارے آئین میں ایسی ہی جمہوریت کا تذکرہ ہے؟ اگر اسے جمہوریت کہتے ہیں تو آمریت کس شے کا نام ہے؟ یہاں پر ہی بس نہیں جب ہماری یہ سیاسی پارٹیاں اقتدار میں آتی ہیں تو اندھوں کی طرح شیرینی صرف اپنوں ہی میں بانٹتی ہیں۔

ہماری ایک بڑی سیاسی جماعت کے نزدیک”کاشر“ ہونا ہی سب سے بڑی اہلیت ہے۔ ایک اور بڑی سیاسی پارٹی کے چیئرمین کے سارے رشتہ دار اور دوست یار جب تک مستفید نہ ہو جائیں دوسروں کے لیے کوئی جگہ نہیں بچتی۔ایک اور قومی سطح کی سیاسی جماعت جو اتنی جمہوری ہے کہ وہ اسٹیب کے کاندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آئی اور اب بھی جمہوری قوتوں سے نہیں نادیدہ  اورطاقت ور قوتوں سے مذاکرات کرنے کی خواہاں ہے۔لیکن نام جمہوریت کا جپتی ہے۔

آن لائن رپبلک پالیسی کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔

ان سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن کس طرح ہوتے ہیں ابھی تک سمجھ نہیں آ سکی؟دراصل ان کے یونین کونسل، تحصیل اور ڈسٹرکٹ لیول پر الیکشن ہوتے ہی نہیں،صرف نامزدگیاں ہوتی ہیں۔توان کے مرکزی عہدیداران کا انتخاب کیسے ہو جاتا ہے؟ الیکشن کمیشن آف پاکستان کس بنیاد پر ان کے انٹرا پارٹی انتخابات کو قانون کے مطابق قرار دے کر سرٹی فیکٹ جاری کرتا ہے؟ کیا الیکشن کمیشن نے کبھی ان سیاسی پارٹیوں کے یونین کونسل، تحصیل، ضلعی اور مرکزی لیول کے انتخابات کی صحیح معنوں میں مانیٹرنگ کی۔ یقینا اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ کیوں کہ الیکشن کمیشن کو سب معلوم ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے انتخابات آنکھوں میں دھول جھونکنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ کیا کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس ممبران کی فہرست ہے؟ کیا ان تمام لیول کے انتخابات کا ریکارڈ ان کے پاس ہے؟ کیا واقعی ان کے انتخابات خفیہ حق دہی کے اصول کے تحت ہوتے ہیں؟ ان سوالات کا جواب نہ تو الیکشن کمیشن کے پاس ہے اور نہ ہی ان نام نہاد جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں کے پاس ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos