Premium Content

بادشاہ مر گیا ہے، بادشاہ زندہ باد! نئے چیف آف آرمی سٹاف کو سلام

Print Friendly, PDF & Email

یہ اصطلاح علامتی ہے اور اس سے مراد ایک روایتی اعلان ہے جو مختلف ممالک میں نئے بادشاہ کی حلف برداری کے موقع پر کیا جاتا تھا ۔ بظاہر متضاد فقرہ بیک وقت جہاں پچھلے بادشاہ کی موت کا اعلان کرتا ہے، وہیں پر نئے بادشاہ کو سلام کرتے ہوئے عوام کو بادشاہت کے تسلسل کا یقین دلاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادارے مرتے نہیں ہیں۔ پھر، اداروں کے صرف سربراہان ہی مرتے ہیں۔ ادارے ان دریاؤں کی مانند ہیں جو ہمیشہ بہتے رہتے ہیں اور لوگ ان کشتیوں کی مانند ہیں جو آتے جاتے ہیں۔

پاکستان میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ اوپر بیان کیے گئے محاورے کا اظہار ہے۔ پھر، آرمی چیف پاکستان میں ریاست کی طاقت کی راہداریوں میں کسی بادشاہ سے کم بھی نہیں ہے۔ تا ہم چیف آف آرمی سٹاف پاکستان میں ایک شخص نہیں بلکہ ایک ادارہ ہے۔ وہ صرف ادارے کے مفادات کی نمائندگی اور  مفادات کی حفاظت کرتا  ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ادارے کے مفادات کارپوریٹ سیکٹر سے لے کر خالصتاً  فوجی مہمات تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے مفادات کا تحفظ ہی فوجی نمائندگی کا سب سے بڑا مقصد سمجھا جاتا ہے۔

چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری ملک کے آئینی سربراہ یعنی وزیراعظم کا عملی استحقاق ہے۔ پھر، جیسے ہی چیف کی تقرری مکمل ہو جاتی ہے ، چیف آف آرمی سٹاف کا انحصار سیاسی سربراہ کی طاقت سے ادارہ جاتی طاقت کی طرف مکمل طور پر منتقل ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی وزیراعظم تقرری کااختیار  استعمال کرتا ہے، وہیں پر چیف آف آرمی سٹاف پاکستان کا سب سے بااثر شخص بن جاتا ہے۔لہذا، سیاستدانوں کو نئے چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری پر جشن نہیں منانا چاہیے کیونکہ نئے تعینات ہونے والے چیف کی طاقت سیاسی سربراہ سے آزاد ہوتی ہے۔ بلکہ یہ آرمی کے  ادارے پر ہی منحصر ہوتی ہے۔

پاکستان میں سیاسی جماعتیں ادارے نہیں ہیں۔ اس لیے سیاسی رہنماؤں کو سیاسی جماعتوں کی طاقت میسر نہیں ہے۔ یہ تجویز سیاسی رہنماؤں پر نفسیاتی طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں، وہ تصور کرتے ہیں کہ چیف آف آرمی سٹاف بھی فوج کے ادارے کا ایک خاندانی بادشاہ کی طرح ہے۔ لہذا، ان کا خیال ہے کہ کسی خاص چیف آف آرمی سٹاف کو تعینات کروانا ضروری ہے کیونکہ ایسا ہونے سے وہ  ان کے سیاسی مفادات کے لیے راہ ہموار کرے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہے چیف آف آرمی سٹاف صرف فوج کے مفادات کے تحفظ کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔ پھر، اگر سیاسی رہنما اور فوج کے مفادات آپس میں ٹکرا جاتے ہیں، تو سی او اے ایس نہ صرف فوج کے مفادات کا تحفظ کرتاہے بلکہ سیاست دان کو زبردست شکست سے بھی ہمکنار کرتاہے۔

سیاست دانوں کو سمجھنا چاہیے کہ آرمی قیادت کے لیے صرف ادارہ جاتی مفادات ہی اہم ہیں۔ سیاست دانوں کو اپنے سیاسی مفادات کی طرف نہیں بلکہ جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور نمائندگی کی طرفداری کرنی چاہیے۔ سیاست دانوں کو جمہوریت کا تحفط کرنا چاہیے۔ وہ اس وقت تک غیر مؤثر رہیں گے جب تک وہ جمہوریت کو مظبوط نہیں کرتے۔ کوئی جنرل ان کی خدمت نہیں کرے گا۔ جرنیل صرف اپنے ادارے کی خدمت کریں گے اور وہ بھی فخر، فرض اور غیرت سے۔

پاکستان میں سیاستدان کب تک جرنیلوں کی طاقت پر بھروسہ کرتے رہیں گے؟ وہ توقع کرتے ہیں کہ جرنیل انہیں اقتدار میں لانے کے لیے اپنی ادارہ جاتی طاقت کا استعمال کریں گے۔ اس سے جمہوری خلا پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق ادارہ جاتی کردار ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔

کیا سیاستدان اس کے لیے تیار ہیں؟ حل یہ ہے کہ ادارہ جاتی تبدیلی آئینی طریقے سے کی جائے۔ سیاستدانوں کو افراد کی نہیں اداروں کی بالادستی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ انہیں آپس میں بہتر اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کا انحصار سیاست دانوں کی سیاسی اور جمہوری کوششوں پر ہے۔ اس لیے سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی مرضی کے جرنیلوں کو تعینات کرنے کی بجائے فوج کے آئینی کردار کے لیے کام کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos