تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق
چند روز قبل پروفیسر نعیم مسعود نے چند دوست اپنے ہاں کھانے پر بلائے اور میں بھی وہاں بنفس نفیس موجود تھا۔ آجکل کے دور میں اس قسم کی بیٹھک سجانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ بندوں کا بھی فقدان ہے۔ مادہ پرستی نے وضعداری کو ملیا میٹ کردیا ہے۔ بحث تمحیص لڑائی جھگڑے بلکہ مارکٹائی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ صاحبان اختیارمکمل طور پر بے اختیار ہو چکے ہیں۔ علمی مباحث شور شرابے سے متعفن ہو چکے ہیں۔ اخلاقیات کا تقریبا جنازہ تیار ہے اور تدفین کا وقت بہت قریب آ چکا ہے۔ ان حالات میں مختلف الخیال لوگوں کو اکٹھا کرکے بیٹھک کے پرامن اختتام کو یقینی بنانے پر پروفیسر مذکور کو مبارک باد پیش نہ کرنا انتہائی ناانصافی ہے۔ بہر حال یہ لائٹر ٹون ہے۔ یہاں میرے علاؤہ سب صاحبان عقل و دانش تھے۔ پاکستان کی چند مشہور جامعات کے وائس چانسلرز، میڈیا کے اہم نام اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے حضرات۔ حضرات ان سب میں ایک نام سہیل وڑائچ بھی تھا جن کو میں نے آج سے پہلے ہمیشہ ٹی وی کی سکرین پر ہی دیکھا تھا۔ وہ انتہائی تحمل مزاج، نفیس اور منکسر المزاج انسان ہیں۔ بلکہ انہوں نے اللہ پاک سے بڑا ہی معصوم لہجہ پایا ہے۔ اور انتہائی معصومیت سے انہوں نے بڑوں بڑوں کی زبان سے بڑے راز اگلوا دیئے ہیں۔ نہ بدتمیزی نہ دھینگا مشتی نہ الزام تراشی نہ میں میں توتو اور نہ ہی بات کے بتنگڑ۔ اس کو کہتے ہیں صحافت۔ ایک دن بندہ جیو کے ساتھ رہتا ہے ملتا ملاتا ہے، سنتا سناتاہے،کھاتا پلاتا ہے، اور آخر پر سہیل وڑائچ چلا جاتا ہے لیکن ایک اہم شخصیت کی زندگی کے مختلف پہلو آشکار ہوجاتے ہیں اور ایک جاندار مثبت پیغام معاشرے کو پہنچ جاتا ہے۔ اب جس کے جی میں آئے وہ پائے روشنی۔ کاش ہم سارے دھیمے مزاج کے لوگ ہو جائیں تو رولے ختم۔ سب مل بیٹھ کر بیٹھک سجائیں اور ایک دوسرے سے کھل کھلا کر دل کی بات کریں۔
طنزو مزاح ہر دور میں ہی مقبول رہا ہے۔ معاشرے کے تلخ حقائق کو یوں پیش کرنا کہ لوگ ہنسنے پر مجبور ہو جائیں اور ہنستے ہنستے اصل بات کو سمجھ جائیں۔ اصل بات یعنی وچلی گل۔ حالانکہ یہ کام بڑا مشکل ہے اور مشکل کام کو ہلکے پھلکے انداز سے کرنا ہی اصل فن ہے۔ فنکار یہی کام کرکے داد سمیٹتا ہے اور امر ہو جاتا ہے۔ مرحوم منیر نیازی کی بذلہ سنجی ہر محفل کا موضوع سخن ہوتی ہے۔ ان کے گاؤں کا ایک نائی ناخن اور بالوں سے خون نکالنے کا ماہر تھا۔ منیر نیازی نے نائی کی اس بات کی یوں مارکیٹنگ کی کہ مذکورہ نائی امر امر ہوگیا۔ گاؤں میں نائی، ترکھان، ونگاری وغیرہ بھی کیا کردار ہوتے تھے۔ پرلے درجے کے کامے۔ یہ گامے ہر کے مامے نہیں بنتے تھے بلکہ کام سے کام رکھتے تھے اور پھر شہروں میں منیر نیازی جیسے دانشور ان کےتذکروں سے ادبی دنیا آباد کرتے تھے۔ اب تو دیہات بھی شہر بنتے جارہے ہیں اور ہر نائی نے اپنا حمام بنا لیا ہے اور اس حمام میں سارے ننگے ہوتے جارہے ہیں۔ ہم سب کو اپنا اپنا دامن بچانے کی اشد ضرورت ہے ورنہ استاد دامن کے بقول لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے روئے تسیں وی او روئے اسیں وی آں۔ رونے دھونے سے بھی کبھی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ محنت لگن اور وہ بھی نیک نیتی کے ساتھ۔ تب جا کر ابر بہاری چلے گی۔ چہرے ترو تازہ ہوجائینگے۔ انسان مسرور ہو کر مثبت انداز سے سوچنا شروع کردیں گے۔ اور پھر الزام تراشیاں اپنی موت آپ مر جائینگی جہاں بھی آج کل چند پڑھے لکھے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ سوچ بچار شروع ہوجاتا ہے اور ہر کوئی اپنی فہم و فراست کے اعتبار سے مسائل کا حل پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمارے ہاں جب خیالات میں اختلاف کا عنصر شامل ہوجاتا ہے تو اس کا نتیجہ بدظنی اور شک رنجی ہے۔ ایسے ماحول میں جنگ تو ہو سکتی ہے ایک دوسرے کے خیالات سے مستفید ہونا ناممکن ہوتا ہے۔ کون کسی کو بیٹھنے کی جگہ دیتا ہے۔ بات کرنے کا حق تو ہمیشہ سے ہی سلب رہا ہے اسی لئے خلق ہمیشہ سے ہی مصلوب ہوتی آئی ہے. تاہم آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھنا چاہیئے۔ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے والے کچھ بھی نہیں ہوتے اور میں کو مارنے والوں کے دنیا گیت گاتی ہے۔ بیٹھک کی خوبصورتی یہ بھی ہے کہ وہاں مکین مل بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے سے سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ سیکھنے سکھانے کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے کی بات بھی غور سے سنی جائے اور بات کرنے کے لئے ہمیشہ اپنی باری کا انتظار کیا جائے۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تھا تو یونیورسٹیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن نے یونیورسٹیوں کی تعداد کو بڑھانے میں اساسی کردار ادا کیا ہے پھر پرائیویٹ اور پبلک سیکٹرز نے بھی اس کام کو آگے بڑھایا۔
اب پاکستان میں مجموعی طور پر سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کی تعداد 237 ہے۔ جن میں سرکاری 141 اور پرائیویٹ 96 ہیں۔ عددی لحاظ سے پنجاب میں 48 خیبر پختونخوا 31 سندھ 29 اسلام آباد 17 بلوچستان 9 کشمیر 5 اورگلگت بلتستان 2 جامعات ہیں ۔ اس وقت پاکستان اعلیٰ تعلیم اور معیاری تعلیمی اداروں کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔ اس سلسلے میں ارباب عقل و دانش سب سے بڑی رکاوٹ بیوروکریسی کو سمجھتے ہیں۔ اس کے حق اور مخالفت میں دلائل کے انبار لگائے جا سکتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کی مذکورہ تعداد کا اگر قیام پاکستان کے وقت موجود یونیورسٹیوں سے موازنہ کروایا جائے تو محض بیوروکریسی کو مورد الزام ٹھہرانا زیادتی ہوگی۔ ہر بات کے پس منظر میں کئی عوامل ہوتے ہیں۔ سنڈیکیٹ میں ممبران پارلیمنٹ کو نمائندگی دی گئی ہے تاکہ وہ حکومت اور یونیورسٹی کے درمیان پل کا کام کریں جبکہ ان کو اپنی عوام کا مفاد سب سے زیادہ عزیز ہے اور اس مقصد کی تکمیل کے لئے ہر قسم کے داخلے ضروری ہیں میرٹ بھاڑ میں جائے۔ جائز ناجائز طریقوں سے نوکریوں کا حصول عوام کا بنیادی حق ہے اور حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ کاش ہم روزگار کے مواقع پیدا کرتے اور پھر میرٹ پر ملازمتوں کے حصول کو یقینی بناتے۔ بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے بارے میں اب عوام نے سوچنا شروع کردیا ہے لہذا اب ان دو طبقات کو بھی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کرنا ہوگا۔ سالانہ بجٹ میں تعلیم پر اخراجات کا حجم بڑھانا چاہیئے اور طلباء وطالبات پر فیسوں کا بوجھ کم کرنا ہوگا۔ غریب اور نادار طلبا کے لئے فری ایجوکیشن کو یقینی بنانا ہوگا۔ اساتذہ کی اہلیت بڑھانے کے لئے سپیشل کورسز کا انعقاد اس لئے ضروری ہے تاکہ ریسرچ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سکوپ آف ورک کا تعین اور وفاقی اور صوبائی کمیشنز کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کا استوار کیا جانا بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ وائس چانسلرز کو اپنے آپ کو سکالرز کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔ جامعات کے فنانشل وسائل کی ترتیب وتدوین میں ریسرچ کو فوقیت دینا ہوگی۔ ریسرچر اور سپروائزر کے درمیان رابطے کو آسان بنانا ہوگا ہر دو کے درمیان پائی جانے والی خوف کی فضا ختم کرنا ہوگی۔
خوف تحقیقی صلاحیتوں کو ختم کردیتا ہے۔ مجھے ان ساری باتوں کا احساس پروفیسر نعیم مسعود کی مذکورہ بیٹھک میں شرکت سے ہوا۔ مجھے یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ سال رواں میں یونیورسٹیوں کی انٹرنیشنل رینکنگ کے لحاظ سے پاکستان میں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد پہلے اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد دوسرے نمبر پر آئی ہیں۔ میں ان ہر دو درسگاہوں کا اولڈ طالب علم ہوں اور یہ سچ ہے کہ میرے بننے سنورنے میں ان اداروں کا بڑا ہی رول ہے۔ ڈاکٹر شاہد کمال گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے موجودہ وائس چانسلر ہیں۔ ہمیشہ بولنے سے پہلے بات کو تولتے ہیں اور سوچ بچار پر یقین رکھنے والے انسان ہیں۔ سوچ بچار سے ہی اداروں کی تنظیم نو کی جا سکتی ہے۔ اور ڈاکٹر محمد علی شاہ موجودہ وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے تو پرانی یاداللہ ہے۔ انتہائی متحرک شخصیت اور خوبصورت انسان ہیں۔قارئین کرام! شیئرنگ سے ہی چیزوں کے بہتر ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ مکالمہ آج کی اہم ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو جاننے اور سمجھنے کے لئے بھی مل بیٹھنے کی بڑی اہمیت ہے۔ آو مل کر ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔