Premium Content

Add

بعض اوقات مرد بھی بے گناہ ہوتے ہیں

Print Friendly, PDF & Email

nawazkhalid123@gmail.com مصنف: نواز خالدعاربی

چنیوٹ کے ایک قریبی قصبہ کے جوار میں، دریائے چناب کے کنارے واقع ایک ٹوریسٹ ڈھابہ پر دو خواتین تشریف لے آئیں۔اپنی پسند کا کھانا آرڈر کیا اور تناول کرنے کے بعد بل ادا کر کے چلی گئیں۔ اگلے دن سرکاری ہسپتال سے اپنا میڈیکل بنوا کر عدالت سے ڈھابہ والوں کیخلاف عصمت دری کا پرچہ دائر کرنے کے احکامات حاصل کر لیے۔ڈھابہ کے مالک کو بحکم ِ عدالت پرچہ دائر کر کے حوالات میں بند کر دیا گیا، جہاں اس نے ناکردہ گناہوں کی پاداش پورے تین دن برداشت کی۔ اُن خواتین کی جانب سے ایک باوردی محکمہ کے کچھ لوگ ڈھابہ والوں سے آملے، اوراُنہیں خواتین سے ’’ صلح کرانے‘‘ کی پیشکش کی۔ تاہم اس کے عوض ان سے خواتین کو سات لاکھ روپیہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔جسے ڈھابہ والوں نے یکسر جھٹک دیا۔ کیونکہ کچھ روز قبل ڈھابہ کے مالکان نے ان وردی والوں کو مفت میں کھانا فراہم کرنے سے معذرت کر لی تھی۔ ڈھابے کے مالک تین سگے بھائی ہیں جنہیں اُنکی محنت اور نیک نیتی کے سبب رب نے خاص نوازا ہے۔ وہ ضلعی پولیس اَفسر کے پاس حاضر ہوئے اور اُس دن کی ویڈیو ریکارڈنگ پیش کر دی۔ ویڈیو دیکھنے کے بعد ضلعی پولیس اَفسر نے تسلی کر لی کہ خواتین کا الزام سراسر جھوٹ پر مبنی رقم بٹورنے کی ایک چال تھی۔لہٰذا اس نے پرچہ خارج کر دیا۔ ڈھابے والے شریف لوگ تھے۔ اپنی عزت بچاکرسعیِ حصولِ رزق میں جُت گئے اور خواتین کیخلاف کوئی بھی قانونی چارہ جوئی کرنے سے اجتناب برتا۔

ریاست کی طرف سے مختلف قوانین کی فراہمی لوگوں کے حقوق و فرائض کی بجا آوری کے گرد گھومتی ہے۔ تاہم کسی قانون میں پائی جانے والی غیر معمولی رعا یت یا سقم کے باعث ’ ’ صاحب ِ طاقت وتعلق‘‘ جب چاہیں، اس قانون کی ناک یا کان مروڑنے کا ’’ استحقاق‘‘ رکھتے ہیں۔ ’’وطنِ عزیز‘‘ میں شایدہی کسی قانون نے اپنے ہدف کو اتنا بے جا تگنی کا ناچ نچایا ہو جتنا ہراسانی کے خلاف تحفظِ خواتین کے قانون نے اپنے ہدف کو تر نوالہ بنا کر اُسکی شرافت کا جنازہ چوراہے میں پڑھایا ہے۔ بلاشبہ، بلاتخصیصِ مذہب، زبان، ثقافت، علاقہ، قوم و برادری خواتین کو حقِ حفاظت حاصل ہے اور اسکی فراہمی کا جلد اور سہل ہونا از حد ضروری ہے۔تاہم اپنے ’’ حقوق ‘‘سے’’ ضرورت سے کہیں زیادہ آگاہ خواتین ‘‘نے کہیں سرکاری دفتروں میں تو کہیں تجارتی مراکز میں’’ حصولِ مقصد‘‘ کی خاطر کبھی بذاتِ خود تو کبھی کسی کاآلہء کار بن کر مردوں کیلئے خوف وہراس کی فضاء پیدا کرنے پر خاصی دسترس حاصل کر لی ہے۔

چند سال قبل ایک بے مثال اخلاقیات کے مالک، انتہائی ایمان دار مگر سخت گیر اَفسر کو اذیتوں کے ایسے سلسلے کا شکار ہونا پڑا کہ دفتر سے معزولی، بیوی بچوں کے سامنے شرمندگی اور سماجی تعلقات میں کنارہ کشی نے اُسکی صحت کے ساتھ کھلواڑ کر دیا۔اس نے فرائضِ منصبی کی بجا آوری میں مسلسل کوتاہی برتنے پر ایک ماتحت خاتون کی سرزنش کرنے کی ’’جسارت‘‘ کر ڈالی۔ خاتون ملازم نے اپنے ’’حقوق‘‘ سے ’’کمال آگاہی‘‘ کی بدولت میڈیا والوں کو اس افسر کے کمرے کے باہر کھڑا کر کے خود اندر داخل ہو کر بات کرتے کرتے اپنے کپڑے پھاڑ دیے اور’’ حال ہُو‘‘ مچانا شروع کر دی۔ پہلے سے موجود ’’ میڈیائی کارندوں‘‘ نے من گھڑت وقوعہ کو جنگل کی آگ کی طرح پھیلایا۔ ’’قانون حرکت میں آیا۔ معاملہ محتسب پنجاب کی عدالت میں چلا۔متعلقہ اَفسر کو ڈیڑھ سال انکوائری کی پُل صراط پر چلنا پڑا ۔تاہم عدم شہادت کے باعث اُسے بے قصور ٹھہرایا گیا۔مگرڈیڑھ سالہ ذلت و رسوائی میں لت پت ا سکی عزت کو کو ئی واپس نہیں لاسکتا تھا۔ایسے بیسیوں واقعات آئے روز ہماری نظروں سے گزرتے ہیں ۔اس روش نے نہ صرف صنفِ نازک کے وقار کو بری طرح مجروح کیا ہے بلکہ کسی خاتون کے ساتھ فی الواقعی ہونے والی جنسی زیادتی یا کوشش کو بھی ’’مشکوکیت‘‘ عطا کر دی ہے۔ بلاشبہ جہاں ایک پار سا خاتون کی ہراسانی پر مبنی شکایت کو شک کی نظر سے دیکھنا ،اُس خاتون کی نیک نامی اور عزت و وقار کو ریزہ ریزہ کر دیتا ہے۔اُسی طرح ایک بھلے مانس شخص کے کندھے بدنامی کا بوجھ زیادہ دیر اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے ۔ سرکاری دفاتر میں کئی اَفسرانِ بالا کو یہ’’ دُھڑکو‘‘ لگا رہتا ہے کہ اگر اُنہوں نے کسی ماتحت خاتون کے ساتھ سخت برتائو کیا تو عین ممکن ہے کہ اُنہیں تحفظِ خواتین کے قوانین کی زَدمیں آنا پڑے۔ مرد افسروں کے اندر پائے جانے والے اس خوف سے اکثر ملازمت پیشہ خواتین بخوبی آگاہ ہیں اور ’’ بوقتِ ضرورت‘‘ اس سہولت سے پورا پورا استفادہ کرنے کا اہتمام رکھتی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی قانون کو بے لگام نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن میری رائے میں ’’ ہراسانی کے خلاف تحفظِ خواتین کا قانون‘‘ انتہائی بے لگام ہے۔ جو بلا واضح ثبوت بھی اپنا پھندا کسی کے گلے میں ڈالنے کا ظرف رکھتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس کوئی بھی قانون کسی عزت دار مر دکو قطعاََ تحفظ فراہم نہیں کرتا۔ صفتِ یوسف کے حامل مرد اس دور میں بھی پائے جاتے ہیں۔ جہاں اپنے ’’ وقت کی زلیخائیں‘‘ اُن پر حملہ آور ہوتی رہتی ہیں ، مگر سزا وار ’’یوسف‘‘ ہی ٹھہرتے ہیں۔

جہاں’’ وقت بدل چکا ہے‘‘ کا فلسفہ دیگر موضوعات ِ زندگی میں جواز کے طور پر سماعتوں سے ٹکراتا ہے، وہاں اس ضمن میں بھی ارباب اختیار سے لے کر’’ احباب معاشرت‘‘ تک سب کو خبر ہونی چاہیے کہ ہمیشہ خواتین ہی سچی نہیں ہوتیں، بعض اوقات مرد بھی بے گناہ ہوتے ہیں۔ کسی مرد کی پاک بازی پر تہمت لگانے سے پہلے الزام کنندہ اور الزام الیہ کے ماضی اور اس کی عمومی شہرت سے آگاہی نہایت ضروری ہے ۔اس لئے سرکار قانونی ماہرین کی مشاورت سے جتنا جلد ممکن ہو، اس قانون کی عملداری میں پائے جانے والے اسقام سے نجات حاصل کرے، تاکہ بے گناہ مردوں کا شملہ مزید پائوں تلے آ نے سے بچ سکے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1