(مصنف: محمد عامر ذوالفقار (ایسوسی ایٹ پروفیسر
خوب سے خوب تر کی تلاش ایک فطری اور قابل ستائش عمل ہے۔ وہی قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جو مسلسل جستجو کرتی ہیں۔ ہم میں سے لگ بھگ تمام لوگ اپنے بزرگوں سے بہتر معیار زندگی گزار رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ مسلسل محنت اور سہولیات کا بر وقت اور صحیح استعمال ہے۔
مگر جہاں مقابلے کی فضاء ہمارے معاشرے کی بقا کے لیے خوش آئند بات ہے وہاں اس کے کچھ ایسے منفی اثرات بھی معاشرے پر عیاں ہوئے ہیں جو معاشرے کے لیے کسی ناسور سے کم نہیں۔ نفسا نفسی کے عالم میں ہر کوئی صرف اپنے بارے میں سوچ رہا ہے ۔ دوسروں کے لیے نیک جذبات، احساسات اور محسو سات دم توڑے جا رہے ہیں۔
اس کی ایک وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے۔ زیادہ تر مڈل کلاس کے لوگ بچپن سے ہی بہتر مستقبل کے حصول کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کافی حد تک اس مقصد میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ مگر جتنا وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اتنا وہ حاصل نہیں کر پاتے۔ پھر ان کی خواہش ہوتی ہے جو وہ حاصل نہیں کرسکے وہ ان کی اولاد حاصل کرے۔ اولاد سے بے انتہا محبت کی وجہ سے وہ اپنے سکھ چین تک قربان کر دیتے ہیں۔ تاکہ کسی طرح بھی وہ اپنی اولاد کا مستقبل بہتر بنا سکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ جائز و ناجائز ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ شروع دن سے ہی اپنی اولاد کے ذہنوں میں یہ بات ڈال کر انہیں مجبور کرتے ہیں کہ انہیں معاشرہ میں بلند مقام حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کرنی ہے وہ شروع دن سے بچوں کو اپنی مرضی کی سمت پر چلنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ تاکہ وہ محرومیاں جو اس کے والدین کے حصہ میں آئیں وہ اس سے محفوظ رہ سکیں۔ چاہے وہ شعبہ بچے کے مزاج کے مطابق ہو یا نہ ہو۔ اگر یہ بچہ جوان ہو کر مطلوبہ معیار زندگی حاصل کر بھی لیتا ہے تو کیا ہم توقع کر سکتے ہیں کہ جس شخص کے والدین نے محض معیار زندگی بہتربنانے کے لیے اپنا بچپن حتیٰ کہ جوانی تک قربان کر دی وہ جب کسی بڑے مقام پر پہنچے گا تو وہ اپنی محرومیوں کا بدلہ معاشرے سے نہیں لے گا؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم ایک ایسے معاشرے کی طرف تو نہیں جا رہے جس میں ہر شخص انتقامی سوچ کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہو؟
تعلیم وتدریس کے شعبے سے وابستہ ہونے کی وجہ سے مجھے ایک سابقہ شاگرد کے واقعہ نے چونکا کے رکھ دیا (جس نے بعد میں بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کر کے ادارہ کا نام روشن کیا) کہ کس طرح ہم بے حسی کی طرف جا رہے ہیں۔ ایک دن اس کے سگے بھائی کی موت واقع ہوئی اور دوسرے ہی دن وہ نہ صرف میری کلاس میں آیا بلکہ اس نے آ کر پوری تیاری کے ساتھ ٹیسٹ بھی دیا۔ بہت سے لوگ شاید اس کے اس عمل کو قابل تحسین سمجھتے ہوں۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس کو اس کے سگے بھائی کی موت اس کے بلند مقاصد کے حصول سے نہ روک سکی۔ کیا کل کو وہ اپنے مفادات کے سامنے کسی کو مقدم رکھے گا؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارا سسٹم کیوں ایسی سوچ رکھنے والے لوگ پیدا کر رہا ہے؟ اگر ایسی سوچ کے ساتھ یہ قوم پروان چڑھی تو شاید یہ قوم اتنی بے حس ہو جائے گی جس کے لیے معاشرے کے دیگر افراد تو کیا گھر میں موجود ماں باپ اور بہن بھائیوں کی بھی کوئی وقت نہیں رہے گی۔
اب یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی سوچ کا قلع قمع کرنے کے لیے لوگوں میں ان کے بہتر مستقبل کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت بنانے پر بھی زوردیں۔ ان کے لیے اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے سے جُڑے دوسرے لوگوں کے دکھ سکھ کا بھی احساس ہو۔ تاکہ ہماری ترقی محض افراد کی ترقی نہ ہو۔ بلکہ ہم ایسا معاشرہ بنا سکیں جہاں لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں نہ صرف شامل ہوں بلکہ ان کو اپنا دکھ درد سمجھتے ہوں اور اس کا ازالہ کرنے کی کوشش بھی کریں۔ تاکہ ہم ترقی کے ساتھ ساتھ افراد کے گِرہ کی بجائے معاشرے کی تشکیل کر سکیں۔
1 thought on “بہتر معاشرے کی تشکیل”
It’s really amazing Sir g!