Premium Content

Add

  کون ہیں بلڈی سویلین؟

Print Friendly, PDF & Email

ہم ایک ایس قوم بن چکے ہیں جو کہ چند سیکنڈز کے لیے ٹریفک سگنلز پر کھڑے نہیں ہوسکتے ہم اپنے قدموں پر کیسے کھڑے ہوں گے۔
 موجودہ صورتحال کو دیکھیں اور آج سے 20 سال قبل کے حالات و مناظرات دیکھیں ہم آگے تو بڑھ چکے ہیں ترقی بھی کرلی ہے مگر ہماری عادتیں وہیں ہیں جو 20 سال پہلے تھیں شاید اس سے پہلے بھی زندگی کے نشیب و فراز یہی ہوتے ہوں گے۔


بلڈی سویلین میرے خیال سے ہراس شہری کے لیے لفظ استعمال ہوتا جسے قانون کی خلاف ورزی کرتے ذہن میں کوئی ڈر خوف نہیں ہوتا اور ہر وہ کام جو جانور بھی شاید نہیں کررہے ہوتے وہ اشرف المخلوقات کررہا ہو تو اسے بلڈی سویلین نہ کہا جائے تو کیا کہیں پھر ؟
ہم سڑک پر نکلیں تو بیشتر افراد موٹرسائیکل اور کار سوار ون وے کی قطار بنائے خلاف ورزی کررہے ہوتے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا چالان کٹ جائےگا۔

جبکہ ٹریفک کے سب قوانین کی خلاف ورزی اپنے باپ کی سڑک سمجھ کرکرتے ہیں
ہم اتنے سمجھدار ہیں کہ پیچھے سے گاڑی ٹھوک کر آگے والے گاڑی یا بائیک سوار کو کہیں گے کہ تیرا دماغ تے درست اے ؟
گلی محلوں میں سڑک بن جائے تو اگلے دن ہمیں یاد آجاتا کہ گھر کی پانی کی پائپ لائن خراب ہوگئی وہ ڈلوانے کے لیے نئی نکور سڑک کو ہم ایک دن بعد ہی توڑ دیتے ہیں۔
کسی بھی گھر میں فوتگی یا شادی بیاہ جیسی کوئی تقریب آجائے تو ٹینٹ لگا کر گلی کو بند کرنا ہم اپنا نادرا سے ملا حق سمجھتے ہیں۔
ٹی وی پر خبر چلتی کہ مہنگائی بڑھ گئی ہے یا کسی بھی ضرورت اشیاء کا حکومتی اسٹاک ختم ہورہا بس پھر کیا اسی وقت ناجائز منافع خور قیمتیں خود سے بڑھادیں گے یا اسٹاک کرنا شروع کردیں گے۔

Don’t forget to Subscribe our channel & Press Bell Icon.


ہمیں نکلی یا کاپی اشیاء کو اصلی بتا کر بیچنے کا بھی فن آتا ہے اور قیمت بھی ٹھیک ٹھاک حاصل کرلیتے جبکہ پکڑے جانے پر گاہک کو پاگل بناکر رفوچکر کرنے کا بھی طریقہ آتا ہے۔
 آپ کسی بھی شہر سے ہوں مارکیٹوں میں ہر دکاندار آپ کو دھوکہ باز اور لٹیرا نظر آئے گا، نہیں یقین تو کچھ خرید کر دیکھ لیں کیسے دکاندار آنکھوں میں دھول جھونکیں گے۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے مگر ہم ایک ایسی قوم ہیں جو سڑک پر بلاوجہ گند پھینکنا اور اپنے گھروں، دکانوں کا کوڑا کرکٹ اٹھا کرسڑک پر الٹ دینا اپنا جائز حق سمجھتی ہے جو کہ انتہائی شرمناک حرکت ہے۔


ہم مردہ مرغی کا گوشت بیچتے بھی ہیں اور اس کے شوارمے بھی بنا کر کھلادیتے جبکہ گدھے کا گوشت شہریوں کو مٹن بتاکر بھی بیچتے رہے ہیں۔
ہم کاروبار نہیں کرسکتے جب تک جیب میں رشوت کے پیسے نہ رکھ لیں کیونکہ ہم نے ایک تو سچی نیت سے کاروبار نہیں کرنا ہوتا دوسرا کچھ محکموں کو خوش رکھنا بھی مجبوری ہوتی۔


ہم اپنے چسکوں کے لیے دوفریقوں میں لڑائی بھی کروادیتے ہیں، ہمیں دفاتر میں تو بہت شوق ہے افسران کو اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی شکایتیں یا چاپلوسی کرکے ان کی خوشنودی حاصل کرنا جس سے اپنی نوکری پکی اور دوسری کی زندگی حرام ہوتی۔
ہم اپنی مجبوری بتاکر ادھار لے لیتے ہیں لیکن جیب میں پیسے ہونے کے باوجود بھی واپس نہیں کرتے اور زلالت بھی برداشت کرلیتے۔
ہم اپنا کام بہتر بنانے کی بجائے دوسرے کا کام بگاڑنے میں ذیادہ انرجی ضائع کردیتے ہیں۔
کیونکہ ہم ہیں ہی بلڈی سویلین لیکن آخر کب تک ہم بلڈی سویلین رہیں گے؟

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1