صاحب جی! میری ماں کو بوتل چاہیے۔

[post-views]
[post-views]


تحریر : ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
ماں بیٹی دونوں اس کے گھر رہتی تھیں۔ بیٹی ملازمہ نہیں تھی اور وہ اسے ملا زمہ سمجھتا بھی نہیں تھا۔ وہ بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھتا تھا لیکن بیٹی اُسے کبھی باپ کی طرح نہیں سمجھتی تھی اور ہمیشہ صاحب جی کہتی تھی۔ وہ نویں جماعت میں پڑھ رہی تھی۔ باقی گھر والے ماں بیٹی دونوں کو اپنی ملازمہ سمجھتے تھے اگرچہ تنخواہ صرف ماں لیتی تھی۔ گرمی کا موسم آتا تھا تو محنتی خاتون پر پژ مردگی چھا جاتی تھی ۔خاتون ہر وقت دوڑتی پھرتی رہتی تھی ۔ ہر کام بھاگ بھاگ کر کر تی تھی ۔انتہائی خوش اخلاق تھی لیکن گرمیاں آتے ہی وہ بالکل بدل جاتی تھی۔ اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ وہی خاتون ہے۔ انتہائی بیمار لگتی تھی، کمزور پڑ جاتی تھی۔ سارا دن بستر پر پڑی رہتی تھی ۔گھر کا کام اس نے کیا کرنا ہوتا ،وہ اپنے کام بھی نہیں کر پا رہی ہوتی تھی ۔بیٹی کو ہمت کرنا پڑتی تھی۔ اسے بیٹی سے کام کروانا کبھی اچھا نہیں لگتا تھا لیکن وہ چاہنے کے باوجود اپنے گھر کا نظام نہیں بدل سکا ۔اس کی بیوی انتہائی سختی سے کہتی تھی کہ گھریلو ملازموں کے معاملات میں مداخلت مت کیاکریں ۔ اکلوتی بیٹی بھی کبھی بات مان لیتی تھی اور کبھی ماں کی پیروی کرتی تھی ۔تمام گھر والوں کا خیال تھا کہ چونکہ ماں بیٹی ہمارے پاس رہتی ہیں، اس لیے ہمارا حق ہے کہ جب ہم بیٹی کو آواز دیں تو وہ الہٰ دین کے جن کی طرح آن موجود ہو اور کام کرے۔ بیٹی ہر وہ کام کرتی بھی تھی جو ماں اپنی بیماری کے باعث نہیں کر سکتی تھی ۔ اگر ماں نے کبھی کسی خوشی غمی پر جانا ہوتا تھا تو بیٹی اپنی خوشی کی قربانی دیتی تھی۔ ان کے گھر ہی رہتی تھی اور تمام کام سر انجام دیتی تھی۔ وہ تنخواہ کو حلال کرنے والے لوگ تھے ۔ صاحب کو ہمیشہ یہ لگتا تھا کہ انہیں ان کی محنت کے حساب سے کم تنخواہ دی جا رہی ہے لیکن گھریلو ملازمین کی تنخواہ ایک انتہائی پیچیدہ معاملہ تھا ۔ جو لوگ ملازم کا بندوبست کر کے دیتے تھے ،وہ پہلے گارنٹی لیتے تھے کہ انہیں مقررہ تنخواہ سے زیادہ تنخواہ نہیں دیں گے، انہیں خراب نہیں کریں گے اور ان کے کاروبار کو متاثر نہیں کریں گے۔ وہ وقتا فوقتا اپنے طریقے سے ان کی مدد کرتا رہتا مگر تنخواہ کے نام پر انہیں اتنے ہی پیسے ملتے تھے جتنے ارد گرد کے تمام گھروں میں ملازمین کو دیے جا رہے تھے۔ ان کی وجہ سے اہل خانہ کو ہر طرح کا سکون حاصل تھا ۔قابل اعتماد لوگ تھے۔ کبھی چوری چکاری نہیں کی ۔ کھانے پینے میں بھی کبھی بے احتیاطی کے مرتکب نہیں ہوئے ۔ وہ حقیقی معنوں میں اس گھر کواپنا گھر سمجھتے تھے۔ اس نے گرمیوں میں خاتون کا علاج کروانے کی پوری کوشش کی مگر خاتون نے اس کی مدد لینے سے انکار کر دیا اور گاؤں چلی گئی ۔ وہاں وہ کسی حکیم یا نیم حکیم سے دوائی لیتی تھی اور بہتر بھی ہو جاتی تھی ۔ اسے اطمینان تھا کہ گرمیوں کے اس موسم میں بھی خاتون ہفتے کے لیے اپنے گاؤں چلی جائے گی اور ٹھیک ٹھاک ہو کر واپس آجائے گی لیکن اس بار کچھ نیا ہوا ۔ جب اس کی بیٹی نے اسے کہا:-” صاحب جی! میری ماں کو بوتل لگوا دیں۔ میری ماں بالکل ٹھیک ہو جائے گی ۔ “کچھ دیر اسے بالکل سمجھ نہ آئی کہ بچی کہنا کیا چاہ رہی ہے ۔ وہ خاموش رہا۔ سوچتا رہا ۔تھوڑی دیر بعد اسے سمجھ آ گئی کیونکہ وہ ڈاکٹر رہ چکا تھا ۔اسے بطور ڈاکٹر کچھ عرصہ ملازمت کرنے کا تجربہ تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ کچھ مردوں کو بوتل کا نشہ ہوتا ہے اور وہ بوتل سے ہی پورا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے خواتین کو بھی بوتل کا نشہ ہوتا ہے ۔ یہ بوتل وہ والی بوتل نہیں۔ اس بوتل کو انگریزی میں ڈرپ کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں فنکار لوگ دیہاتی خواتین کی کثیر تعداد کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ ہزار ہا بیماریوں کا علاج ایک ڈرپ ہے ۔ وہ جانتا تھا کہ جب تک انسان منہ سے کھا پی سکتا ہو، دوائی بذریعہ ڈرپ لینے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ اس نے بحث نہ کی اور خاتون کو ڈرائیور کے ساتھ ہسپتال بھیج دیا۔ ڈاکٹر کو فون بھی کر دیا ۔تین دن ڈرپ لگتی رہی ۔ چوتھے دن خاتون مکمل تندرست ہو گئی۔ ہمارے ہاں صحت کی بابت بہت سارے مغالطے پائے جاتے ہیں اور بدقسمتی سے سوشل میڈیا کے ظہور سے ان مغالطوں میں اضافہ ہوا ہے، کمی نہیں ہوئی۔ اگرچہ ہماری نئی نسل خوراک کے بارے میں اور اپنی صحت کے بارے میں بہت زیادہ معلومات رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود ابھی بھی اکثر افراد حقیقی معلومات سے محروم ہیں ۔ ان کو شعور دینے کے لیے انتہائی سنجیدہ کاوشوں کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں صحت کی بابت بہت سے مغالطے قبول عام کا درجہ پا چکے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ طبی تعلیم کو بچوں کے نصاب کا حصہ بنایا جائے ۔ طیبہ سیف صاحبہ ایک جگہ لکھتی ہیں:-” اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ مسلم معاشرے کی سماجی تربیت کے لئے مسجد اور مکتب کا کردار بڑا اہم رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ علما ء اپنا کردار ادا کریں اور اپنے خطبات میں عوام کو اس بات کی ترغیب دیں کہ وہ طبی مسائل کا حقیقی شعور حاصل کریں ۔ مدرسے اور مسجد کی مدد کے بغیر لوگوں کے شعور کی آبیاری کرنا ناممکن ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم بطور قوم سوچنا شروع کریں۔” عموما ہمارے ہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ دیہاتوں میں چھوٹے شہروں میں اورچند دیگر مقامات پر کثیر العیال کنبے میں سے ایک شخص پڑھ جاتا ہے تو اس کا لائف سٹائل بہتر ہو جاتا ہے ، وہ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ دیتا ہے ۔کسی بڑے شہر جا بستا ہے ، اس کا اپنے گاؤں یا آبائی شہر کے ساتھ تعلق بالکل واجبی سا رہ جاتا ہے۔ ایسے لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جنہوں نے اپنی کامیابی میں اپنے آبائی علاقے اور آبائی علاقے کے لوگوں کو شریک کار سمجھا۔ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے مگر ہماری جو سماجی ذمہ داریاں ہیں اور بطور انسان ہم معاشرے کے لیے کتنے کارآمد ہیں، اس کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے ۔عوام کے سماجی شعور اور عوام کی کاوشوں کے بغیر ترقی کیسے کی جا سکتی ہے؟ اکیلی حکومت کیا کر سکتی ہے؟ اب وقت آگیا ہے کہ سول سوسائٹی کے لوگ اس سوال کو سنجیدگی سے لیں ۔ ہمارے ہاں این جی اوز کا عوامی شعور کی بیداری میں کیا کردار ہے؟ اس بابت تحقیق کی جانی چاہیے اور تحقیق کی روشنی میں آئندہ کا راستہ متعین کرنا چاہیے ۔ میری عاجزانہ رائے ہے کہ اب ہم ماضی کے بارے میں پریشان ہونا چھوڑ دیں ۔ تاریخ دان ما ضی کا جائزہ لیتے رہیں گے ۔ ہمیں اپنے آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے کہ ہم اپنے ملک ، اپنے وطن ، اپنے صوبے اور اپنے شہر کو کس طرف لے کر جانا چاہتے ہیں؟ اس بابت بہترین پلاننگ کرنی چاہیے اور اس پلاننگ میں حکومت اور عوام دونوں سب سے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں ۔ دونوں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں بہترین خدمات سرانجام دینی چاہیے۔ ترقی کا واحد راستہ عوام کی بہترین تربیت کرنا ہے۔ یہی پیغمبروں کی سنت ہے ۔ آئیے! اپنے ملک کے غیر مراعات یافتہ طبقے کی تربیت میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان لوگوں کی تربیت کےلئے اپنا کردار ادا کریں ، جو علم حاصل نہیں کر سکے ۔ یہی ہمارا بنیادی فریضہ ہے۔ اللہ تعالی کی رضا کے حصول کا بہترین راستہ بھی یہی ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا :- ” تم میں سے بہترین وہ ہے جو دوسروں کے لیے سب سے بہتر ہے”۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos