طاہر مقصود
پاکستان میں جمہوری نظام کے بظاہر قائم ہوتے ہوئے بھی، ریاستی اداروں کی غیر جانبداری ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ اس مسئلے کی جڑ سیاسی حکومتوں اور ان کے “وفادار” بیوروکریٹس کے درمیان موجود خفیہ سمجھوتوں میں ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں انتظامی ڈھانچے میں تقرریوں کے ذریعے اپنی گرفت مضبوط رکھتی ہیں۔ سیکریٹریز، کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز اور دیگر کلیدی عہدوں پر ایسے افسران تعینات کیے جاتے ہیں جو نہ صرف سیاسی وفاداری دکھاتے ہیں بلکہ حکمران جماعت کے غیر آئینی فیصلوں پر بھی خاموشی سے عمل درآمد کرتے ہیں۔
بیوروکریسی اور سیاسی وفاداری کا گٹھ جوڑ
پاکستانی بیوروکریسی کا ایک المیہ یہ ہے کہ اس کا بڑا حصہ سیاسی وفاداریوں پر مبنی تبادلوں اور تقرریوں کی سیاست میں الجھا ہوا ہے۔ جب اعلیٰ حکومتی عہدے دار میرٹ کو پس پشت ڈال کر صرف ایسے افسروں کو ترجیح دیتے ہیں جو ان کے ذاتی یا جماعتی مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بن سکیں، تو پورا نظام عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً، ریاستی مشینری کا بنیادی مقصد – عوامی خدمت – نظر انداز ہو جاتا ہے اور بیوروکریسی ایک سیاسی ہتھیار میں بدل جاتی ہے۔
یہ صورتحال اس وقت مزید سنگین ہو جاتی ہے جب ان افسران کو انتخابی عمل میں شامل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ وہ انتخابی عمل کو شفاف اور غیر جانبدار بنانے کے لیے بیوروکریسی کا انتخاب خود کرتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اکثر انہی افسران کو تعینات کرتا ہے جن کی وفاداری ماضی میں حکومتی جماعتوں سے وابستہ رہی ہوتی ہے۔
الیکشن کمیشن کی کمزور گرفت اور خاموشی
الیکشن کمیشن کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابی عمل کو صاف شفاف رکھے، لیکن عملی طور پر یہ ادارہ اکثروبیشتر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتا ہے۔ جب ایسے افسران، جو پہلے سے حکومتی اثر و رسوخ کے زیر سایہ کام کرتے رہے ہوں، انتخابی ذمہ داریوں پر مامور کیے جاتے ہیں تو ان سے غیر جانبداری کی توقع ایک خوش فہمی سے زیادہ نہیں۔ مزید بدقسمتی یہ ہے کہ جب ان پر انتخابی دھاندلی یا جانبدار کارروائی کے الزامات لگتے ہیں، تو الیکشن کمیشن ان کے خلاف مؤثر ایکشن لینے سے قاصر رہتا ہے۔
اس خاموشی کا فائدہ سیاسی جماعتیں خوب اٹھاتی ہیں۔ پولنگ اسٹیشن پر انتظامی دباؤ، نتائج کی منتقلی میں تاخیر، یا پریزائیڈنگ افسران کے ذریعے نتائج میں رد و بدل جیسے اقدامات بیوروکریسی کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ اس طرح انتخابی دھاندلی ایک مربوط اور منظم عمل بن جاتی ہے جس میں انتظامیہ سہولت کار کا کردار ادا کرتی ہے۔
انتظامیہ کی ساکھ پر سوالات
بیوروکریسی کے اس جانبدار رویے نے نہ صرف انتخابی عمل بلکہ پورے ریاستی نظام کی ساکھ کو داغدار کیا ہے۔ جب ایک عام شہری یہ دیکھتا ہے کہ اس کا ووٹ درحقیقت ایک طے شدہ نتیجے کی نذر ہو جاتا ہے، تو اس کے اندر جمہوریت سے اعتماد اٹھنے لگتا ہے۔ نتیجتاً، انتخابی عمل میں عوامی شرکت کم ہو جاتی ہے، اور پورے نظام پر عوامی بے یقینی گہری ہو جاتی ہے۔
یہ جانبداری صرف انتخابات تک محدود نہیں رہتی۔ جو افسران انتخابی عمل کے دوران حکومتی ایما پر کام کرتے ہیں، وہ عام دنوں میں بھی حکومتی پالیسیوں کو عوامی مفاد کے بجائے سیاسی مفادات کے تابع رکھتے ہیں۔ ان کے فیصلے عوامی بہبود سے زیادہ سیاسی بقاء کے گرد گھومتے ہیں۔
اصلاحات اور شفافیت: ایک ناگزیر ضرورت
اگر پاکستان میں واقعی ایک مضبوط، شفاف اور مؤثر جمہوری نظام کی بنیاد رکھنی ہے، تو بیوروکریسی کو سیاسی اثر و رسوخ سے مکمل طور پر آزاد کرنا ہوگا۔ اس کے لیے تین اہم اقدامات ناگزیر ہیں:
- انتخابی اصلاحات: الیکشن کمیشن کو مکمل خودمختاری دی جائے، اور اس کی تعیناتیوں اور تبادلوں میں مکمل شفافیت ہونی چاہیے۔ تمام انتخابی افسران کی تقرری صرف میرٹ اور غیر جانبداری کی بنیاد پر ہو۔
- ادارہ جاتی احتساب: ایسے افسران جو انتخابی دھاندلی میں ملوث پائے جائیں، ان کے خلاف فوری اور مؤثر کارروائی کی جائے۔ اس مقصد کے لیے ایک خودمختار مانیٹرنگ سیل تشکیل دیا جا سکتا ہے جو بیوروکریسی کی کارکردگی کا جائزہ لے۔
- بیوروکریٹک تربیت: سول سروس اکیڈمیز میں سیاسی غیر جانبداری اور جمہوری اصولوں پر مبنی تربیت کو نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائے۔ افسران کو یاد دلایا جائے کہ ان کی وفاداری صرف آئین پاکستان کے ساتھ ہے، نہ کہ کسی سیاسی شخصیت یا جماعت کے ساتھ۔
نتیجہ: بیوروکریسی کو جمہوری محافظ بنانا ہوگا
پاکستان میں ایک مضبوط جمہوریت کی بنیاد اسی وقت رکھی جا سکتی ہے جب ریاستی ادارے، خاص طور پر بیوروکریسی، غیر جانبداری کا مظاہرہ کریں۔ اگر بیوروکریسی کا سیاسی استحصال ختم نہ کیا گیا تو انتخابات صرف ایک رسمی مشق رہ جائیں گے، جن سے عوامی اعتماد مزید متزلزل ہوگا۔ بیوروکریسی کو سیاسی وفاداری کے بجائے عوامی خدمت کا ستون بنایا جائے – یہی ایک مستحکم اور عوام دوست پاکستان کی جانب پہلا قدم ہے۔