Premium Content

‏بیوروکریسی کا پاکستان

Print Friendly, PDF & Email

پاکستانی بیوروکریسی کو سمجھنے کے لیے مختصر تجزیہ ضرور پڑھیں۔

پاکستان میں ابھی تک سپیشلائزڈ بیوروکریسی کی جگہ کلونیل طرز کی جنرسلٹ بیوروکریسی قائم ہے۔ مزید یہ کہ پاکستانی بیوروکریسی فیڈرلزم کے قانون کی بجائے وحدانی طرز پر قائم ہے اور اسے صرف وفاقی حکومت کنٹرول کرتی ہے۔ پاکستانی بیوروکریسی 1949 کے ایک معاہدہ کے تحت قائم شدہ 1954 کے رولز کے تحت ابھی تک کام کر رہی ہے، حتیٰ کی پاکستان میں تین آئین اور اٹھارویں ترمیم کے ذریعے وفاقی اور صوبائی حدود متعین ہو چکے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے ہے کہ پاکستان کی لیڈنگ بیوروکریسی کسی ایکٹ کے تحت قائم نہیں ہوئی بلکہ ایک معاہدہ کے تحت 1949 میں قائم ہوئی، اور اس معاہدے کے نکات موجودہ وفاقی آئین سے مکمل متضاد ہیں۔ مزید برآں، صوبائی سول سروسز کے مطابق یہ معاہدہ ہوا ہی نہیں تھا۔

پاکستانی بیوروکریسی میں ڈی ایم جی گروپ تحصیل ، ضلع ، ڈویژن ، صوبہ، کشمیر و گلگت و وفاقی حکومت، یہاں تک کہ بیرون ملک بھی تعنیات ہے۔ اس کے علاؤہ تمام وفاقی و صوبائی محکموں، اضلاع، اداروں، غرضیکہ ہر جگہ تعنیات ہے۔ بیوروکریسی کی ایسی مثال کسی اور ملک میں میسر نہیں ہے۔ اس لیے یہ بات واضع ہے کہ ڈی ایم جی پاکستان میں وفاقی ، صوبائی ، کشمیر، گلگت بلتستان اور جہاں تک کہ اضلاعی حکومتوں کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ آسان الفاظ میں پاکستان کی تمام مالی و انتظامی فائلیں ڈی ایم جی کے مرضی سے ہی منظور ہوتی ہیں۔ مزید پاکستان کو چار چیف سیکرٹری ، آئی جیز، سیکرٹری اسٹیب اور وزیراعظم و وزراء اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹریز کنٹرول کرتے ہیں۔

Don’t forget to Subscribe our channel & Press Bell Icon.

پاکستان میں ایک ہزار سے ذیادہ وفاقی، صوبائی اور ضلعی انتظامی اداروں کے سربراہان بیوروکریٹس ہیں۔ یہ تمام بیوروکریٹس جنرل کیڈر بیوروکریسی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنرل کیڈر بیوروکریسی کیا ہے؟ جنرل کیڈر بیوروکریسی سے مراد ایک ایسے کیڈر آف پوسٹس کو تشکیل دینا ہے جو کہ تمام اداروں کی اہم پوسٹس کو ایک ہی کیڈر میں اکٹھا کرے اور یوں اس کیڈر کے افسران تمام اداروں کی اہم پوسٹس کو کنٹرول کر کے ان اداروں کو کنٹرول کر سکیں ۔ حتیٰ کہ دنیا میں انتظامیہ کی کامیابی انتظامی و مالی خودمختاری اور سپیشلائزیشن کے بنیادی اصولوں پر کھڑی ہے۔ اگر سپیشلائزڈ بیوروکریسی اور ادارہ جاتی خودمختاری کے بنیادی اہداف حاصل کر لیے جائیں تو انتظامی کارکردگی بہتر کی جا سکتی ہے۔

پاکستان ایک وفاق ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے اور مرکز کے اختیارات متعین کر دیے گئے ہیں۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کلونیل طرز پر قائم 1954 کے رولز کے ذریعے وفاقی آئین کے انتظامی ڈھانچے کو سرے سے ہی ختم کر دیا جائے؟ صوبائی پوسٹس پر وفاقی حکومت وفاقی افسران کو کس قانون کے تحت تعنیات کر سکتی ہے؟ چیف سیکرٹری اور آئی جی کی صوبائی پوسٹس پر وفاقی حکومت کس قانون کے تحت وفاقی افسروں میں سے چیف سیکرٹری اور آئی جی تعنیات کرتی ہے ؟ پاکستان کے آئین کا ایک چوتھائی حصہ فیڈرلزم کے اوپر قائم ہے اور کسی بھی صورت میں کوئی ایکٹ، رولز، یا انتظامی حکم آئین کی بنیادی ساخت اور سکیم کے مخالف قائم نہیں رہ سکتا۔

رپبلک پالیسی کا ماہ جون کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔

آخر میں پاکستان کی ترقی کے لیے بیوروکریسی کی ریفارمز کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ریفارمز دو بنیادی اصولوں فیڈرلزم اور سپیشلائزڈ بیوروکریسی پر کی جانی چاہئیں تاکہ کلونیل طرز کی مرکزی اور جنرل کیڈر بیوروکریسی کا خاتمہ کیا جا سکے اور نتیج تا گڈ گورننس، لوکل گورنمنٹ اور سروس ڈیلیوری کے اہداف پورے کیے جا سکیں۔

Detailed research ” Five Rules to Reform Civil Services ” are available at republicpolicy.com‎

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos