Mubashar Nadeem
تحریکِ انصاف کی حالیہ سیاست میں قیادت کا خلا شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے، خصوصاً عمران خان کی عدم موجودگی کے بعد۔ ایسے میں ان کے بیٹوں قاسم خان اور سلیمان خان کی ممکنہ سیاسی شمولیت کو ایک نئی امید اور سمت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ شمولیت اگر صرف علامتی نہ ہو، بلکہ عملی، ادارہ جاتی اور پائیدار انداز میں ہو، تو پارٹی کے اندر توازن اور تنظیم نو کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں۔
عام انتخابات میں تحریکِ انصاف نے ایک بار پھر عوامی حمایت حاصل کی، لیکن پارٹی کی عملی سیاسی کارکردگی، تنظیمی استحکام، قانونی حکمت عملی اور مینڈیٹ کے حصول کے معاملات میں کمزوری نظر آئی۔ عمران خان کی غیر موجودگی نے ایک ایسا سیاسی خلا جنم دیا ہے جسے کوئی موجودہ رہنما پُر نہیں کر پایا۔ اس پس منظر میں قاسم اور سلیمان خان کے ناموں کا ابھرنا پارٹی کے کارکنان کے لیے نہ صرف ایک جذباتی سہارا بن سکتا ہے، بلکہ قیادت کے تسلسل کا پیغام بھی دے سکتا ہے۔
تحریکِ انصاف کے دیرینہ کارکنان اس وقت شدید ذہنی اضطراب کا شکار ہیں۔ اُن کے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ عمران خان کے بعد پارٹی کا بیانیہ کون لے کر چلے گا؟ اگر قاسم یا سلیمان خان اس منظرنامے میں سامنے آتے ہیں، تو کارکنان کو ایک واضح سمت اور استقامت کا احساس ہو گا، اور ممکن ہے کہ پارٹی کا منتشر فریم ورک دوبارہ منظم ہو سکے۔ تاہم، یہ بات ضروری ہے کہ ان کی شمولیت محض جذباتی تاثر تک محدود نہ ہو، بلکہ ایک مکمل سیاسی عمل، سیکھنے، تنظیمی تربیت، اور عوامی روابط کی بنیاد پر استوار ہو۔
ایک بنیادی چیلنج ان نوجوانوں کے لیے یہ ہے کہ ان کا نہ صرف سیاسی تجربہ محدود ہے، بلکہ انہوں نے پاکستان کی عملی سیاست میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ دونوں نوجوان مغرب میں تعلیم یافتہ اور وہاں کی زندگی کے عادی رہے ہیں، جب کہ پاکستانی سیاست جذباتی، پیچیدہ اور اکثر غیر متوقع حالات کی حامل ہے۔ صرف خاندانی پس منظر یا سیاسی وراثت یہاں کامیابی کی ضمانت نہیں بن سکتے۔ اس کے لیے سیاسی فہم، عوام سے جڑت، میدان عمل میں موجودگی، اور پارٹی تنظیم کی باریکیوں کا شعور لازمی ہے۔
اس حوالے سے ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ تحریکِ انصاف نے ہمیشہ خاندانی سیاست کے خلاف بیانیہ اپنایا ہے۔ اگر عمران خان کے بیٹے پارٹی میں فعال کردار ادا کرتے ہیں، تو یہ سوال بھی اٹھے گا کہ کیا تحریکِ انصاف اپنے ہی اصولوں سے انحراف کر رہی ہے؟ کیا یہ عمل شخصی سیاست یا وراثتی قیادت کی طرف واپسی نہیں ہوگا؟ اس لیے ان کی شمولیت کا انداز، دائرہ کار، اور طریقہ کار اس بات کا تعین کرے گا کہ پارٹی کو استحکام حاصل ہو گا یا مزید تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Please, subscribe to the YouTube channel of repblicpolicy.com for quality content.
قاسم اور سلیمان کی موجودگی اس وقت پارٹی کو ادارہ جاتی سطح پر ازسرنو ترتیب دینے میں معاون ہو سکتی ہے۔ پارٹی کو اس وقت تنظیمی بحالی، پالیسی تسلسل، اور نوجوان قیادت کی شدید ضرورت ہے۔ اگر یہ دونوں نوجوان سیاسی سیکھنے کے عمل میں شامل ہوتے ہیں، میدان میں آتے ہیں، ورکرز سے جڑتے ہیں، اور پارٹی فیصلوں میں دانشمندانہ مشاورت کے ذریعے شامل ہوتے ہیں، تو یہ تحریکِ انصاف کے لیے نئی زندگی کا اشارہ بن سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ شمولیت محض عمران خان کے نام پر وقتی ہمدردی یا جذباتی حمایت سمیٹنے کی کوشش ثابت ہوئی، تو یہ نہ صرف ناکام ہو گی بلکہ پارٹی کی ساکھ کو بھی مزید دھچکا پہنچا سکتی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر عمران خان ایک مقبول سیاسی برانڈ بن چکے ہیں۔ ان کے بیٹوں سے فطری طور پر یہ توقع کی جائے گی کہ وہ اپنے والد کے وژن کو آگے بڑھائیں گے۔ مگر اس وژن کو پاکستانی سیاست کے زمینی حقائق میں ڈھالنے کے لیے صرف نیت کافی نہیں — اس کے لیے میدان سیاست میں مسلسل موجودگی، تجربہ، تربیت، اور سٹریٹجی درکار ہے۔ پاکستان کی سیاست میں لیڈر شپ کا تعین محض نعرے بازی یا میڈیا کوریج سے نہیں ہوتا بلکہ عوامی سطح پر، یونین کونسل سے لے کر اسمبلیوں تک، عملی کارکردگی سے ہوتا ہے۔
یہ بھی ایک اہم پہلو ہے کہ اگر قاسم اور سلیمان سیاست میں آتے ہیں تو ان کا موازنہ دیگر سیاسی جماعتوں کے نوجوان قائدین جیسے بلاول بھٹو زرداری یا مریم نواز شریف سے کیا جائے گا۔ یہ موازنہ محض خاندانی پس منظر کی بنیاد پر نہیں بلکہ کارکردگی، عوامی اپروچ اور سیاسی بصیرت کی بنیاد پر ہو گا۔ اس لیے ان کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہو گا کہ وہ خود کو کس طرح ایک مؤثر اور قابل اعتماد سیاسی رہنما کے طور پر منوائیں گے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو قاسم اور سلیمان خان کی ممکنہ شمولیت تحریکِ انصاف کے لیے ایک امید کی کرن ثابت ہو سکتی ہے۔ مگر یہ صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے جب یہ شمولیت شعور، تربیت، اور ادارہ جاتی نظم کے ساتھ ہو۔ پارٹی کی موجودہ صورتحال میں جہاں قیادت کا فقدان ہے اور کارکنان منتشر ہیں، وہاں ان کی موجودگی اگر ایک منظم حکمتِ عملی کے تحت ہو تو یہ پارٹی کے لیے نئی سیاسی زندگی ثابت ہو سکتی ہے۔
عمران خان کی رہائی بذاتِ خود ایک نظامی تبدیلی کی علامت بن سکتی ہے، لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاسی اور انتظامی نظام بوسیدہ ہو چکا ہے، وہاں صرف ایک فرد یا خاندان کافی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریکِ انصاف ایک منظم، باشعور، اور نظریاتی قوت کے طور پر ابھرے، جو صرف جذبات پر نہیں بلکہ فکری بلوغت، تنظیمی ڈھانچے، اور پائیدار پالیسیوں کی بنیاد پر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکے۔ قاسم اور سلیمان کی شمولیت اسی وقت فائدہ مند ہو گی جب وہ اس بڑے مقصد کا حصہ بنیں، نہ کہ صرف ایک علامتی موجودگی تک محدود رہیں۔