ناصرعباس نیّر
میرے بس میں ہوتو میں ایک کمرے میں بند ہوں،جہاں میرے دل چسپی اور ذوق کی کتابیں ہوں، ایک بیڈ ہو، ایک لیپ ٹاپ، اور کچھ میوے ۔ کمرے کے باہر ایک درخت ہو۔ میرے لیے یہی جنت ہے۔ ڈھیر سار اپڑھوں اور ڈھیر لکھوں،اور باقی وقت ذہن کو خاموش رکھوں، زیادہ سے زیادہ دنیا بھر کا میوزک سنوں اور پرندوں کی آوازیں۔کبھی کبھی کچھ بہت ہی اچھے دوستوں سے گپ شپ۔
نجیب محفوظ کی کئی افسانوی و غیر افسانوی تحریریں پڑھی ہیں۔ ان کے خواب بھی پڑھے ہیں آج’’چوراورکتے‘‘پڑھا۔
یہ مختصر ناول ہے۔ علاؤالدین نے اس کا ترجمہ کیا ہے ،اور اچھا کیا ہے۔ یہ سید مہران کی کہانی ہے، جسے حالات پہلے چور، پھر قاتل بنادیتے ہیں۔اس کی زندگی پریشانیوں سے بھری ہے۔ جو لوگ اس پریشانی کے ذمہ دار ہیں، وہ سب اچھی زندگی بسر کرتے ہیں ،یہاں تک کہ اپنی خطاؤں کی سزا سے بھی بچ جاتے ہیں، مگر سید مہران کی بالغ زندگی کا کوئی پل جرم ،خود اذیتی اور مصر اوردنیا کے نظام کو سمجھ نہ پانے کی بے بسی سے خالی نہیں ہے۔
اس کا دوست، رؤف علوان ، اسے چوری ہی نہیں سکھاتا، چوری کو جائز سمجھنے پر قائل بھی کر لیتا ہے، وہ ایک بڑے اخبار الذہرا کامالک بھی بن جاتا ہے اور مصر کے اعلیٰ ترین طبقے کا فرد بھی، جب کہ وہ محض ایک چور، قاتل اور بے بس باپ بن کر رہ جاتا ہے۔ وہ نبیویہ سے شادی کرتا ہے جو ایک یتیم لڑکی ہے، مگر اسی کا دوست ایلش سدرہ ،اسے بھگا لے جاتا ہے۔ اسے بہ یک وقت تین صدمے سہنے پڑتے ہیں: بیوی کی بے وفائی ، دوست /شاگردکے دھوکے اور بیٹی ثنا کا اسے ردّ کرنا۔ یہ تینوں صدمے ، اس کے لیے ناقابل برداشت ہوتے ہیں۔ وہ چار سال قاہرہ کی جیل میں رہ کر آتا ہے،ایک ہی عزم لیے کہ وہ بیوی اور اس کے نئے شوہر کو قتل کرے گا۔
وہ جو کچھ سوچتا ہے، واقعات اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ وہ جیل سے واپس آنے کے فوراً بعد ایلش کے فلیٹ میں آتا ہے،جہاں اور لوگ بھی جمع ہوجاتے ہیں،اور وہیں بیٹی اسے پہچاننے سے انکار کرتی ہے۔ وہ اسی رات واپس فلیٹ آتا ہے۔ اپنے خیال میں ایلش کو قتل کرتا ہے مگر صبح اخبارات سے پتا چلتا ہے کہ اس نے دراصل کسی شابان حسین کو قتل کردیا ہے۔ ایلش اور نبیویہ اسی شام وہ فلیٹ چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ کہ ایلش اور نبیویہ نے اس کے عزائم پڑ ھ لیے تھے اور انھوں نے ٹکر لینے کے بجائے، محفوظ ٹھکانے کی تلاش کا فیصلہ کیا تھا، یہ بات سید مہران کے خیال میں نہیں آتی۔ وہ اپنے غصے اور انتقام میں چیزوں کی پیچیدگی کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔یہی غلطی وہ اپنے سابق دوست رؤف علوان کے سلسلے میں بھی کرتا ہے۔ جس شام اس سے ملاقات ہوتی ہے، اور وہ اس فرق کو محسوس کر لیتا ہے جو رؤف اور اس میں پید اہوچکا ہے، وہ اگلی رات اس کے گھر چوری کے لیے آتا ہے اور پکڑا جاتا ہے۔ رؤف اسے معاف کردیتا ہے، یہ کہہ کر اس نے اسے چوری سکھائی تھی، اس لیے وہ جانتا تھا کہ وہ اسی کی طرف آئے گا۔ رؤف اس کے دل میں چھپے حسد کو پہچان لیتا ہے، مگر سید مہران غلطی پر غلطی کرتا ہے۔ وہ ایک بار پھر رؤف علوان کے گھر اسے قتل کرنے آتا ہے۔ اس بار بھی وہ ایک غریب چوکیدار کا قتل کرجاتا ہے ۔
وہ دو قتل کرتا ہے، دونوں بے گناہ۔ جنھوں نے اس سے واقعی زیادتی کی ہوتی ہے، وہ ہر بار اسے بچ جاتے ہیں۔ وہ شیخ علی الجنیدی کے پاس بھی کچھ راتیں گزارتا ہے ، جو اس کے والد کے شیخ یعنی مرشد تھے۔ وہ اپنی علامتی زبان میں اللہ سے لو لگانے کی بات سمجھاتے ہیں،مگر اس پر دھوکے دینے والوں کو انجام تک پہنچانے کا جنون سوا ر ہوتا ہے۔ شیخ کی روحانیت ، اس کی روح پر کوئی دستک دے نہیں پاتی، اور نہ ہی نور کی محبت۔ وہ اللہ اور نور کی محبت دونوں کو کھودیتا ہے۔ تیس سالہ نور ایک کیفے میں کام کرتی ہے، وہ اس سے محبت کرتی ہے، اس کے ساتھ ایک جرم بھی کرتی ہے،تاکہ اس کی محبت حاصل کرسکے،مگر وہ اپنی ذہنی و جذباتی دنیا ،جس میں انتقام ونفرت کے سوا کچھ نہیں، سے باہر نہیں آپاتا،اس لیے اسے بھی کھودیتا ہے۔ آخر میں وہ اس قبرستان میں جو نور کے فلیٹ کے سامنے ہے، اس میں وہ خود کو سپردکردیتا ہے۔ ناول کا یہ آخری حصہ بڑی مہارت سے لکھا گیا ہے۔ اس میں مقبرے ، موت ، فوج کی طاقت یک جا کردی گئی ہے۔
ناول میں ایک جگہ ٹارز ن کے کیفے کا منظر بیان ہوا ہے( ٹارزن مہران کی کافی مدد کرتا ہے اور بچاتا ہے ) جس میں یہ گفتگو ہورہی ہے کہ ’’ایک پستول ، روٹی کے ٹکڑے سے زیادہ اہم ہوتا ہے….ایک شخص کو ایک بندوق اور ایک کتاب کی ضرورت ہوتی ہے۔بندوق ماضی کا خیال رکھے گی اور کتاب مستقبل کا‘‘۔ سید مہران کو بندوق اور کتاب دونوں پسند ہیں۔ مگر تقدیر اسے بندوق پکڑا دیتی ہے۔ وہ کتاب کی کمی ضرور محسوس کرتا ہے، مگر مواقع ملنے کے باوجود وہ کتاب کی طرف لوٹ نہیں پاتا۔ شاید اس کا المیہ بھی یہیں سے شرو ع ہوتا ہے کہ وہ کتاب اور بندوق دونوں کو لازم سمجھتا ہے۔
حقیقت میں بندوق اس کے ماضی کا خیال نہیں رکھتی، ماضی کے جہنم سے نجات کے لیے اسے پر امید بناتی ہے ، مگر اس پر رفتہ رفتہ کھلتا ہے کہ یہی بندوق اس کے ماضی کے جہنم کو وسیع کرتی ہے اور اس کی آگ کو مزید بھڑکاتی ہے۔ اس کے لیے یہ خیال مسلسل جہنم کی مانند ہے کہ اسے دھوکہ دینے والے زندہ ہیں، جب کہ بے گناہ مارے گئے۔ وہ ایک بامعنی زندگی سے دست بردار ہوکر، بامعنی موت کے تصور کو قبول کرلیتا ہے مگر اسے یہ بھی نہیں ملتی۔ وہ خو د کو پولیس کے حوالے کردیتا تو شاید اس کی موت بامعنی ہوسکتی تھی۔
ناول کچھ تو سیدھاسادہ حقیقت نگاری پر مبنی ہے مگر سید مہران کی خود کلامی ، اس حقیقت نگاری کےمتوازی نفسیاتی حقیقت نگاری ہے، اور یہ ایک شخص کی انتہائی مضطرب ، خود ہی میں مرتکز روح کو سمجھنے میں معاون ہے۔ 1961ء میں لکھا گیا ناول ، آج بھی دل چسپ محسوس ہوتا ہے۔ناول میں چور تو خود سید مہران ہے، لیکن کتے کون؟ اگرچہ ناول میں کئی بار کتوں کو اس چور پر بھونکتے دکھایا گیا ہے ، لیکن وہ کتے سامنے نہیں آتے۔ کتے ایک سرئیل حقیقت کو پیش کرتے ہیں۔ جہاں چور،وہاں کتے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ کتے ، واقعی چور کو چوری سے روکنے کے لیے بھونکتے ہیں یا بھونکنا ان کی مجبوری ہے؟ کہیں یہ کتے وہ تو نہیں جو اس لیے کتے ہیں کہ وہ چور نہیں بن سکے؟
مجھے ایڈورڈ سعید کی ایک بات یاد آرہی جو اسی ناول کی ابتدا میں شامل تحریر میں درج ہے۔ یہ کہ نجیب محفوظ کے لیے زیادہ پرکشش بات یہ رہی ہے کہ درحقیقت ایک مطلق العنان وجود (یعنی خدا) ایک مادی شکل اختیار کر لے تو وہ دوبارہ اپنی اصل حالت میں لوٹنے کا اہل نہیں رہتا۔ اس طرح کے غیر معمولی تصورات کے بغیر کوئی اچھا ناول لکھا ہی نہیں جاسکتا۔