صفیہ رمضان
پاکستان میں ماحولیاتی انصاف کے حوالے سے پہلا بڑا قدم اُٹھایا گیا ہے، جب کہ ملک کی پہلی ’’کلائمیٹ جسٹس ڈیکلریشن‘‘ مرتب کی گئی ہے۔ یہ دستاویز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان ماحولیاتی بحران کا سنجیدگی سے جائزہ لے اور ماحول سے اپنے تعلق کو نئے سرے سے سمجھے۔ تاہم، اس اہم پیش رفت کے باوجود حکومت کے عملی اقدامات نمائشی اور سطحی نظر آتے ہیں۔
وفاقی بجٹ 2025-26 کو پاکستان کا پہلا ’’ماحولیاتی بجٹ‘‘ قرار دیا جا رہا ہے، مگر حقیقت میں یہ بجٹ ماحولیاتی بحران کے حل کے بجائے محض سبز دعووں اور زبانی وعدوں پر مشتمل ہے۔ بجٹ میں ’’گرین واشنگ‘‘ کا سہارا لیا گیا ہے، یعنی ماحولیاتی تحفظ کے نام پر وہ اقدامات کیے گئے ہیں جو اصل میں مالیاتی مفادات کے لیے ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات پر فی لیٹر 2.5 روپے ’’کاربن لیوی‘‘ اور درآمدی سولر پینلز پر 10 فیصد ٹیکس کو ماحولیاتی اقدامات کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جب کہ یہ اقدامات نہ صرف غریب طبقے پر بوجھ ڈالتے ہیں بلکہ متبادل توانائی کے فروغ کی راہ میں رکاوٹ بھی ہیں۔
دوسری جانب، کوئلے پر مبنی بجلی کے منصوبے بدستور جاری ہیں اور توانائی پالیسی کا مرکز اب بھی فوسل فیول پر ہے۔ یہ ماحولیاتی قیادت نہیں بلکہ ریونیو اکٹھا کرنے کا ایک نیا ہتھکنڈہ ہے جسے سبز رنگ دے دیا گیا ہے۔
یہ بجٹ سب سے زیادہ وہاں ناکام ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ ضرورت ہے: یعنی ماحولیاتی موافقت میں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی خطرات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، لیکن بجٹ میں اس پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ زیادہ تر رقم ڈیموں، انفراسٹرکچر اور دیگر طویل مدتی منصوبوں پر خرچ ہو رہی ہے، جو مستقبل کی تیاری کے لیے تو ضروری ہو سکتے ہیں، مگر موجودہ حالات میں، جب لاکھوں لوگ اپنے گھر، روزگار اور جانیں کھو رہے ہیں، یہ منصوبے بے اثر نظر آتے ہیں۔
ایک تجزیے کے مطابق، بجٹ کا 87 فیصد حصہ ماحولیاتی ’’تخفیف‘‘ پر خرچ کیا جا رہا ہے، جب کہ صرف 10 فیصد ’’اڈاپٹیشن‘‘ کے لیے مختص ہے۔ سوات دریا میں 18 سیاحوں کی المناک ہلاکتیں اس حقیقت کی یاد دہانی ہیں کہ ماحولیاتی بحران کوئی دور کی بات نہیں بلکہ ایک حالیہ اور سنگین حقیقت ہے۔
حکومت کو اب نمائشی اقدامات سے آگے بڑھنا ہوگا۔ سب سے پہلے، ماحولیاتی فیصلے سیاسی مفادات کے بجائے سائنسی بنیادوں پر ہونے چاہئیں اور ان پر عوامی نگرانی ہونی چاہیے۔
دوسرا، حکومت کو ان علاقوں اور افراد کی مدد کرنی چاہیے جو پہلے ہی موسمی تباہ کاریوں سے متاثر ہو چکے ہیں۔ سیلاب سے تحفظ، متاثرہ علاقوں کی بحالی، اور آئندہ ممکنہ آفات کے لیے پیشگی تیاری کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے۔
تیسرا، ہمیں مغربی ماڈلز کی اندھی تقلید بند کرنی چاہیے اور مقامی حلوں پر بھروسہ کرنا چاہیے — جیسے روایتی زراعت، مقامی جنگلات کے تحفظ کے طریقے، اور کمیونٹی پر مبنی منصوبے۔ اصل ماحولیاتی اصلاحات سنجیدہ عزم اور ادارہ جاتی فیصلوں کا تقاضا کرتی ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ مزید تاخیر نہ کرے، فوری طور پر ماحولیاتی اتھارٹی قائم کرے، جنگلات، زراعت اور پانی جیسے شعبوں کے لیے مناسب فنڈز مختص کرے، اور ماحولیاتی مجرموں اور سرکاری غفلت کے ذمہ داران کو جوابدہ بنائے۔
پارلیمنٹ پر بھی لازم ہے کہ وہ اس ماحولیاتی انصاف کے اعلان کا جائزہ لے، اس پر بحث کرے، اور اسے قانون میں تبدیل کرے۔ قانون، بجٹ اور عملدرآمد — یہ سب یکساں طور پر ضروری ہیں تاکہ ماحولیاتی تحفظ صرف الفاظ میں نہیں بلکہ زمینی سطح پر بھی نظر آئے۔
ماحولیاتی انصاف کا تقاضا ہے کہ ہم اجتماعی عزم کا مظاہرہ کریں — نہ صرف عوام بلکہ صاحبانِ اقتدار بھی۔ پاکستان کے پاس اب دو راستے ہیں: ایک طرف سبز دعوے اور نمائشی بجٹ، دوسری طرف حقیقی استحکام اور ماحولیاتی تحفظ۔ فیصلہ اب صرف عوام کا نہیں، بلکہ اُن حکمرانوں کا بھی ہے جنہیں عوام نے اقتدار سونپا ہے۔