Premium Content

دائم آباد رہے گی دنیا

Print Friendly, PDF & Email

مصنف:          شفقت اللہ مشتاق

امجد اسلام امجد دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔ ویسے تو  روزانہ بےشمار لوگ دنیا چھوڑ جاتے ہیں اور پھر واپس مڑ کر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے یا حکمت ایزدی کی بدولت وہ اپنے پیچھے روتے ہوئے متعلقین کو دیکھنے کی قوت بھی نہیں رکھتے ہیں۔ کاش انہیں قوت گویائی دے دی جاتی تو وہ قبر میں بیتی پہلی شب کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے اور ہم سب مرنے سے پہلے مر جاتے اور شام سے پہلے سیدھے اپنے گھر چلے جاتے۔ سیدھا راستہ دکھانے والے ہی امر ہو جاتے ہیں۔ امجد اسلام امجد جیسے افراد کا دنیا سے جانا معمولی بات نہیں ہوتی ہے کیونکہ زمانہ ان کی بات بڑے شوق سے سن رہا ہوتا ہے اور ان کی بات کا ہر دل پر اثر ہوتا ہے کچھ دل تو مردہ ہوتے ہیں اور ان باتوں سے وہ بھی زندہ ہوجاتے ہیں۔ کچھ شاعر تو شاعری برائے شاعری کرتے ہیں۔ ایسی شاعری کا رد تو قرآن مجید میں بھی کیا گیا ہے لیکن ایسے شاعر بھی ہوئے ہیں جن کی شاعری نے سوچ کی بنجر زمین کو ہرا بھرا کیا ہے اور اس کے نتیجے میں لوگوں کو ان سے والہانہ عقیدت ہو گئی ہےاور پھر وہ سدا ایسی آواز سننے کے لئے مضطرب و بیتاب رہتے ہیں۔  مرحوم کی آواز نے ہر کسی کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ان کے منہ سے پھول جھڑتے تھے اور ان کا ایک ایک مصرعہ زبان زد خاص وعام ہوا ہے۔ یہاں تک کہ آزاد شاعری کو بھی انہوں نے ایک نئی زندگی دی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امجد مر کر بھی زندہ ہو گئے ہیں۔ ان کی موت کی خبر نے مجموعی طور پر لوگوں کو مغموم کردیا ہے۔ وہ ایک غیر متنازعہ شخصیت کے مالک تھے۔ بائیں بازو والے انہیں اپنا شاعر سمجھتے تھے اور دائیں بازو والے ان کے کلام میں اپنا پیغام سنتے تھے۔ یوں ان کی شاعری سب سننے والوں کے لئے برابر مقبول تھی۔ ایسے شاعر ہی اپنی زندگی کے بوٹے کو آب حیات سے سیراب کرتے ہیں اور ہر دور میں زندہ رہتے ہیں

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/quaid-e-azam-aur-aj-ka-pakistan/

میری ان سے پہلی ملاقات مینجمنٹ اینڈ پروفیشنل ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ(ایم پی ڈی ڈی) میں اس وقت ہوئی جب وہ ہمیں اردو ادب پر لیکچر دینے تشریف لائے تھے۔ ان کا نام سنتے ہی ان سے ملنے کاتجسس پیدا ہوا اور پھر میں نے ان کو غور سے دیکھا۔ سر تا پا نفاست ہی نفاست۔ لب و لہجے میں انتہائی شائستگی اور گفتار میں دھیما پن لیکن انداز گفتگو دلوں میں اتر جانے والا۔ ایک ہی لیکچر میں ہم ان کے پرستاروں کی لسٹ میں شامل ہو گئے اور مجھے فخر ہے کہ میں نے ان سے ایک ہی لیکچر کے دوران بڑا استفادہ کیا یوں مجھے ان کے شاگرد ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ اس روز سب شرکاء نے سوال کئے اور سب کو انتہائی صائب جواب ملے۔ جذباتی گفتگو کا شائبہ تک نہیں تھا۔ عقلی توجیہہ ان کی شاعری میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ ان کی شاعری سے سب لوگوں میں کچھ نہ کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ اپنے سامعین کو شاعری کم سناتے تھے بلکہ شاعری میں ان سے باتیں کرتے تھے۔ باتیں اور وہ بھی حکمت کی باتیں۔ مشاعروں میں بھی ان کو سنا۔ وہ اپنے خیالات کو شاعری کے ذریعے سے اپنے قارئین تک پہنچا کر اپنا حق ادا کردیتے تھے۔ جذباتی گفتگو اکثر معاشرے میں ہیجان کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ وہ کیفیت کے شاعر تھے لیکن وہ نہ خود جذباتی ہوتے تھے اور نہ اپنے سننے والوں کو جذباتی کرتے تھے۔ وہ دلوں کے ساتھ ساتھ دماغوں کے بھی تار ہلا دیتے تھے۔ وہ فطرت کی بات کرکے عقلی اور فطری طور پر اپنے قاری کو جینے کا ڈھنگ سکھا دیتے تھے۔ میں روایتی تبصرہ کرنے پر یقین نہیں رکھتا اور میں زہر ہلاہل کو کبھی بھی قند نہیں کہتا۔ لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ امجد اسلام امجد حقیقت میں حقیقت کا شاعر تھا اور افسانوی قصے کہانیوں سے اس کی شاعری مکمل طور پر پاک تھی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ذمے کوئی خاص پیغام پہنچانے کا کام تھا اور اس نے یہ کام اپنی شاعری کے ذریعے سے کر کے یہ ثابت کردیا کہ انسان چاہے تو کیا نہیں کرسکتا۔  انسان کو جوش سے زیادہ ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی اللہ اپنے بندوں سے جو چاہتا ہے کام لے لیتا ہے۔ ایسے تو نہ امجد کی سوچ کی پھلواری میں رنگ برنگے جاذب نظر پھول دیکھے جا سکتے ہیں۔

میری طرح ہر شخص ان کی اچانک موت کی خبر سن کر ایک دفعہ تو سکتے میں آگیا۔ ہنستا مسکراتا اور شعر پڑھتا امجد اسلام امجد کیسے یکدم خاموش ہو گیا۔ امرربی کی بدولت، وہ ہم سب کو ایک ایسی دولت دے گیا ہے جس میں حکمت و دانائی ہے، سوز وگدازہے، تحقیق و جستجوہے، گہرائی و گیرائی ہے، غور و فکر ہے، سوچ بچار اور تجسس ہے، روانی اور موسیقی ہے، سادگی و سلاست ہے،  جدت ہی جدت ہے اور روایت سے مکمل لاتعلقی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ لاجواب اور بے نظیر شاعری۔ ان کی شاعری پڑھ کر ایک دفعہ انسان کچھ نہ کچھ سوچنے اور کرنے پر ضرور مجبور ہوتا ہے اور پھر سوچتا ہی چلا جاتا ہے۔ اپنے بارے میں سوچتا ہے۔ اپنے جیسوں کے بارے میں سوچتا ہے۔ اپنے سے زیادہ طاقتوروں کے بارے میں سوچتا ہے اور پھر ان طاقتوروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بارے میں سوچتا ہے۔ وہ کمزور کو طاقتور بنانے کا خواب دیکھتا ہے اور پھر اپنی شاعری کی بدولت اس میں حوصلہ اور ہمت پیدا کرتا ہے اور وہ پر امید ہے کہ ایک نہ ایک دن کلاس سسٹم کی عمارت زمین بوس ہوجائیگی اور انسانوں کے معاملات مساوات اور برابری کی بنیاد پر طے کئے جائیں گے اور یہ سارا کچھ مذکورہ شاعری کے پیغام میں طے ہوچکا ہے۔ کچھ دیر باقی ہے۔ مزے کی بات ہے کہ وہ سوچ میں ڈوب کر مایوس نہیں ہوتا بلکہ مایوس ماحول میں امید کی شمع جلا کر پریشان حال لوگوں کو ان کی منزل کا راستہ دکھاتا ہے اور پھر ان کی ڈھارس بندھاتا ہوا اور اپنے پراثر شعر سناتا ہوا ان کوان کی منزل پر لے کر پہنچ جاتا ہے۔ نشان منزل کوئی ان سے سیکھے۔ عصر حاضر کا منفرد اور یکتا شاعر۔ امید کا شاعر۔ جستجو کا شاعر۔ عشق و محبت کا شاعر۔ زندگی و بندگی کا شاعر۔ بے نیازی و خود داری کا شاعر۔ گل و گلزار و ریگزار کا شاعر۔نئی امنگوں کا شاعر۔ من میں ڈوب جانے والاشاعر۔ فطرت کے اندر جھانکنے والا شاعر۔ ہر کسی کی سوچ کو جھنجھوڑنے والا شاعر۔ ہر کسی کی بات کرنے والا شاعر۔ بلکہ پوری زمین اور پورے آسمان کا شاعر۔ پاکستان کا بہت بڑا شاعر۔ زندگی اس کو بہت اچھی لگتی ہے۔ ان سے ملنے کے لئے میں کافی دنوں سے پر تول رہا تھا لیکن اب شاید موت بھی اس کو اچھی لگنے لگی ہے اور اب ان سے دنیا میں ملنا میری قسمت میں نہیں تھا اور اب وہ زندگی سے روٹھ گیا ہے۔  وہ ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن ان کی شاعری ہمارے ذہنوں میں اپنا گھر بنا چکی ہے یہ گھر تاابد قائم و دائم رہے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos