پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ

[post-views]
[post-views]

ارشد محمود اعوان

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت پر ایک بار پھر دہشت گردی کا سایہ گہرا ہو گیا ہے۔ اسلام آباد کی ضلعی عدالت کے باہر ہونے والے خودکش حملے نے کم از کم 12 قیمتی جانیں لے لیں اور درجنوں افراد کو زخمی کر دیا۔ یہ ہولناک واقعہ اس کمزور احساسِ تحفظ کو ختم کر گیا جو طویل عرصے بعد ملک کے دل میں جنم لے رہا تھا۔ کئی برسوں تک شدت پسندانہ کارروائیاں زیادہ تر خیبر پختونخوا اور بلوچستان تک محدود رہیں، لیکن اس حالیہ حملے نے ثابت کر دیا کہ اب ملک کا کوئی حصہ، حتیٰ کہ سب سے محفوظ شہر بھی، دہشت گردی کی زد سے باہر نہیں۔

ویب سائٹ

یہ سانحہ ان سیاہ برسوں کی یاد دلاتا ہے جب خودکش دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ روزمرہ کا معمول تھے۔ منگل کے روز ہونے والا یہ حملہ عام شہریوں پر کیا گیا، جبکہ ماضی میں زیادہ تر حملے سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے تھے۔ اس سانحے کی سنگینی میں اضافہ اس وقت ہوا جب وانا کے کیڈٹ کالج پر عسکریت پسندوں کے قبضے کے دوران وہاں بھی کلیئرنس آپریشن جاری تھا۔ ان دونوں حملوں کا بیک وقت ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ شدت پسند گروہ جو ماضی میں پسپا کر دیے گئے تھے، اب دوبارہ خطرناک ہم آہنگی کے ساتھ سرگرم ہو رہے ہیں۔

یوٹیوب

وزیراعظم شہباز شریف نے ان حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں ’’بھارتی ریاستی دہشت گردی‘‘ قرار دیا اور افغانستان میں موجود عناصر کو بھی اس تشدد سے جوڑا۔ انہوں نے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے ’’خوارج‘‘ گروہوں کو اس سانحے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک قدم آگے بڑھ کر کہا کہ پاکستان ’’عملاً حالتِ جنگ‘‘ میں ہے۔ یہ بیان بظاہر سخت لگتا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ شدت پسندی ایک بار پھر ریاست کی صلاحیت اور ارادے کا امتحان لے رہی ہے۔

ٹوئٹر

سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ اسلام آباد اور وانا کے حملوں کی جامع اور غیر جانبدار تحقیقات کی جائیں۔ اگر معتبر شواہد بھارت یا افغانستان کے ملوث ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں تو پاکستان کو فوری طور پر نئی دہلی اور کابل سے سفارتی و عالمی سطح پر بات کرنی چاہیے۔ تاہم، اصل خطرہ اندرونی ہے۔ یہ حقیقت کہ ایک خودکش حملہ آور اسلام آباد جیسے سخت حفاظتی نظام کو چیر کر مرکزی علاقے تک پہنچا، ملکی انٹیلی جنس کے رابطوں اور شہری انسدادِ دہشت گردی نظام کی سنگین خامیوں کو ظاہر کرتا ہے۔

فیس بک

پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی انسدادِ دہشت گردی پالیسی کا ازسرِ نو جائزہ لے۔ آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد نے وقتی طور پر دہشت گرد نیٹ ورکس کو توڑ دیا تھا، مگر انتہاپسند نظریات اور بھرتی کے نظام کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ فوجی کارروائی اکیلے پائیدار امن کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ ریاست کو انٹیلی جنس اصلاحات، سرحدی انتظامات اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے عملی حکمتِ عملی اپنانی ہوگی — اور اس کے لیے مضبوط سیاسی عزم ناگزیر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وفاقی و صوبائی اداروں کے درمیان بہتر رابطہ بھی ضروری ہے جو اکثر الگ الگ سمتوں میں کام کرتے ہیں۔

ٹک ٹاک

اگر واقعی پاکستان حالتِ جنگ میں ہے جیسا کہ وزیر دفاع نے کہا، تو یہ جنگ صرف حکومت کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ہے۔ اس کے لیے قومی سطح پر اتحاد اور مشترکہ عزم درکار ہے۔ سیاسی جماعتوں کو باہمی اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک جامع، طویل المیعاد حکمتِ عملی تشکیل دینی ہوگی۔ سول سوسائٹی، میڈیا، اور سیکیورٹی ماہرین کو بھی اس مکالمے کا حصہ بننا چاہیے۔ دہشت گردی کے خلاف لڑائی صرف عسکری نہیں، بلکہ فکری، ادارہ جاتی اور سماجی جدوجہد بھی ہے۔

انسٹاگرام

بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی قیادت اب بھی باہمی محاذ آرائی میں الجھی ہوئی ہے اور دہشت گردی جیسے وجودی خطرے کو نظرانداز کر رہی ہے جو ملک کی جمہوریت اور خودمختاری کے لیے براہِ راست چیلنج ہے۔ موجودہ حکمتِ عملی ردِ عمل پر مبنی، کمزور اور سیاسی طور پر منقسم ہے جس نے نہ تشدد کو روکا ہے نہ ہی قیمتی جانوں کے ضیاع کو۔ ملک کو اس وقت سیاسی چالاکی نہیں بلکہ بالغ نظری کی ضرورت ہے۔ پارلیمان کو اس جدوجہد میں قیادت کرنی چاہیے تاکہ قومی اتفاقِ رائے پیدا ہو اور سیکیورٹی آپریشنز آئینی دائرے میں رہ کر مؤثر ثابت ہوں۔

ویب سائٹ

اسلام آباد کا یہ حملہ محض ایک اور افسوسناک واقعہ نہیں بلکہ ایک سخت انتباہ ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کو ایک قومی ہنگامی مسئلہ سمجھ کر اس کے خلاف مکمل اور غیر مشروط کارروائی کرنی ہوگی۔ ایسے نیٹ ورکس، ان کے ہمدردوں اور ان کے نظریاتی بیانیوں کے لیے صفر برداشت کی پالیسی اپنانی چاہیے۔ امن اُن لوگوں کے ساتھ ممکن نہیں جو آئین کو مسترد کرتے ہیں اور معصوم شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ریاست کو عزم، اتحاد اور انصاف کے ساتھ ثابت کرنا ہوگا کہ اسلام آباد اور وانا میں بہنے والا خون ایک نیا موڑ ثابت ہوگا، نہ کہ دہشت گردی کے طویل سلسلے کی ایک اور بھولی ہوئی قسط۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos