مبشر ندیم
پاکستان کی سیاسی فضا اس وقت ایک ایسی کیفیت سے گزر رہی ہے جو نہ صرف غیر یقینی کا شکار ہے بلکہ ایک وسیع تر قومی اضطراب کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ انتخابی عمل سے جڑی شکایات، ادارہ جاتی اعتماد میں کمی، اور سیاسی جماعتوں کے مابین بڑھتی ہوئی خلیج نے ایک ایسی صورتِ حال پیدا کر دی ہے جس میں جمہوری استحکام ایک خواب سا محسوس ہونے لگا ہے۔
فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد جس انداز میں نتائج کو متنازع بنایا گیا، اس نے جمہوری عمل کی شفافیت اور ساکھ کو گہری ضرب پہنچائی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے انتخابی دھاندلی کے الزامات، بعض حلقوں میں دوبارہ گنتی یا تحقیقات کے مطالبات، اور اس کے مقابل حکومتی مؤقف میں عدم لچک — ان تمام عوامل نے سیاسی تناؤ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اداروں کے کردار پر اٹھتے سوالات، بالخصوص عدلیہ اور اسٹیب کی مبینہ مداخلت، اس بحران کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔
سیاسی قیادت کا طرزِ عمل بھی اس صورتِ حال کو سلجھانے کے بجائے بگاڑنے کا سبب بن رہا ہے۔ ایک طرف الزام تراشی، کردار کشی اور انتقامی بیانیہ ہے، تو دوسری جانب قومی سطح کے مسائل جیسے کہ معاشی بدحالی، مہنگائی، بےروزگاری، اور گورننس کی کمزوری کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ عوام اس رسہ کشی میں تماشائی بنے بیٹھے ہیں، جنہیں ہر حکومت صرف انتخابی مہم کے دوران یاد کرتی ہے، اور اقتدار کے بعد بھلا دیا جاتا ہے۔
پاکستان کی سیاست کو اس وقت سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ بالغ نظری، بردباری اور مکالمے کی سنجیدہ روایت ہے۔ ایک ایسا مکالمہ جو ذاتی یا جماعتی مفاد سے بالاتر ہو کر ریاستی مفاد کو مقدم رکھے۔ ریاستی اداروں کے مابین آئینی توازن کی بحالی، پارلیمان کی خودمختاری، عدلیہ کی غیر جانب داری، اور عسکری اداروں کا غیر سیاسی کردار — یہی وہ بنیادی عناصر ہیں جو ایک مستحکم اور قابلِ بھروسا نظام کی ضمانت بن سکتے ہیں۔
یہ لمحہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کے آغاز کا متقاضی ہے۔ وہ باب جس میں سیاسی مخالفین کو دشمن نہیں بلکہ اختلاف رکھنے والے شریکِ سفر سمجھا جائے، جہاں آئین محض ایک کتاب نہ ہو بلکہ حقیقی معنوں میں قومی رہنمائی کا دستور ہو، اور جہاں اقتدار عوامی خدمت کا وسیلہ بنے نہ کہ ذاتی مفاد کا ہتھیار۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں سیاسی بے یقینی سے نکال کر قومی استحکام کی جانب لے جا سکتا ہے۔