سماجی ناہمواریوں کے خلاف قلم سے لڑنے والے جالب کی شاعری آج بھی لوگوں کو سچ پر ڈٹے رہنے کا درس دیتی ہے۔اُنہوں نے اپنی زندگی انقلاب کی امید میں جیلوں اور پولیس کے ہاتھوں مار پیٹ میں گزاری جس پر اُنہیں فخر تھا۔ انہوں نے ہر عہد میں سیاسی اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی جس کی وجہ سے وہ ہر عہد میں حکومت کے معتوب اور عوام کے محبوب رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں ان کی نظم لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو، ضیاء الحق کے دور میں ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا اور بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کی نظم وہی حالات ہیں فقیروں کے، دن پھرے ہیں فقط وزیروں کےنے پورے ملک میں مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی۔
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
خامشی پر ہیں لوگ زیر عتاب
اور ہم نے تو بات بھی کی ہے
مطمئن ہے ضمیر تو اپنا
بات ساری ضمیر ہی کی ہے
اپنی تو داستاں ہے بس اتنی
غم اٹھائے ہیں شاعری کی ہے
اب نظر میں نہیں ہے ایک ہی پھول
فکر ہم کو کلی کلی کی ہے
پا سکیں گے نہ عمر بھر جس کو
جستجو آج بھی اسی کی ہے
جب مہ و مہر بجھ گئے جالبؔ
ہم نے اشکوں سے روشنی کی ہے