جنگی، فرنگی ، منگی اور چنگی

[post-views]
[post-views]


تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
وہ دو دہائیوں بعد وطن واپس آیا تھا۔فرنگیوں کے دیس گیا تھا ۔ فرنگن ساتھ لایا تھا ۔ عقل اور دانش میں دنیا کی کسی بھی شخصیت کا مقابلہ کر سکتا تھا ۔ نظم و ضبط کا پابند ضلع جھنگ کا رہائشی آتے ہی حیرت کے سمند ر میں غو طہ زن ہو گیا ۔مئی کا مہینہ تھا ۔ اچانک ہی بھارت کی پاکستان دشمنی نے زور مارا ، انہوں نے پاکستان کے شہر شہر میں ڈرون اتارا لیکن لوگ خو ف زدہ نہ ہوئے ، انجوائے کرنے لگے ، جشن منائے گئے ، لطائف بنائے گئے ، اشعار سنائے گئے ، وہ حیران سے حیران تر اور پھر حیران ترین ہو گیا لیکن اہل وطن کا چلن وہی رہا ۔ آخر کار پاک فوج نے بھارت کے طیارے گرائے ۔ بھارتیوں کی عقل پر ہوش کے بم پھینکے تو ازلی دشمن نے عقل کے ناخن لیے مگر ناخن دوبارہ اگست کے مہینے میں کاٹ ڈالے ۔آبی جارحیت کی ، اس کے ہوش سنبھالنے کے بعد شاید پہلی دفعہ انتہائی اونچے درجے کاسیلاب آیا ۔ پنجاب کا کونہ کونہ زیر آب آیا لیکن لوگوں کے جذبے پر شباب آیا ۔ کبھی نہ لگا کہ کوئی عذاب آیا ۔یوں ہی لگا کوئی بھیانک خواب آیا جو آنکھ کھلتے ہی اپنی وقعت کھو بیٹا۔ لوگ یک جان ہو چکے تھے ، یک جان ہی رہے ۔ معرکہ حق میں فتح کے بعد جشن کا سماں تھا ۔ وہی سماں برقرار تھا ، اس کی حیرت بڑھتی گئی۔ جھنگ کے رہائشی کو اسلام آباد میں رہتے عمر گزر گئی تھی مگر دل پاکستانی بھی تھا اور اہلِ جھنگ بھی ۔نجانے اس کے دل میں کیا سمائی کہ وہ اپنے گاؤں چلا آیا ۔ گاؤں تریموں کے قریب تھا ، چناب اور جہلم کے سنگم پر تھا ۔بچپن میں اسے بتایا جاتا تھا کہ اگر کسی نے دنیا کے خوبصورت ترین پانی کو دیکھنا ہے تو وہ تریموں پر جہلم چناب کے ملاپ والا پانی دیکھے۔ شاعر جھنگ رنگ اپنے اشعار میں تریموں کو امر کر چکے تھے ۔جھنگ کے سیال اور دیگر مقامی قبائل نہ صرف پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا میں رہائش پذیر تھے ۔ وہ جہاں بھی گئے تھے ، اپنی ثقافت اور اپنی کہانیاں ساتھ لے کر گئے تھے ۔ ہیر رانجھا دنیا کی رومانوی داستانوں میں اپنا ایک مقام رکھتی تھی ۔ حضرت سلطان باھو کا مزار شریف بھی قریب تھا ۔ اس کا بچپن ہیر وارث شاہ اور ابیات باھو سنتے گزرا تھا ۔ وہ تریموں کے نئے توسیع شدہ ہیڈ ورکس پر چہل قدمی کر رہا تھا کہ عجب نظارہ دیکھا کہ ایک دیہاتی اپنی پانچ سات سال کی بیٹی کو پانی دکھا رہا تھا اور نرم لہجے میں ترنم بکھیر رہا تھا :-” دیبو دھی رانی ، بڑی سیانی ، ہندوستان نی کتی چنگی ، حالات بنا دیے ہیں جنگی ، یہاں آیا تھا فرنگی ، ہم نے سب کی خیر ہی منگی ، دیے ساڈے بل دے رئے، ہل ساڈے چل دے رئے ، بال ساڈے پل دے رئے ، دکھ سارے ٹل دے رئے ، اے ویلا وہ گزر جائے گا ، ہمیں مضبوط بنائے گا ” ۔وہ حیران ہوا مگر پریشان نہیں ، خوش ہوا اور بے پناہ خوش ہوا ۔ مدتوں بعد اسے لگا کہ اس کا دل لڈی ڈالنے کو کر رہا ہے ۔ وہ گھر گیا اور اس نے لڈی ڈالی بھی ۔ والد تو وفات پا چکے تھے۔ خاندان کے سربراہ چچا تھے ۔ چچا بہت خوش ہوئے ۔ کہنے لگے :-” کسی شاعر نے بجا کہا تھا کہ فطرت اگر انسان کی ابتدا ہی سے تربیت نہ کرے تو بندہ شاید اذیت کے موسموں میں مر جائے “۔ پاکستان کا قیام ہندوؤں نے کبھی دل سے قبول نہیں کیا ۔ افغانستان میں بھی چند ایسے لوگ موجود ہیں جو سرحد پر سوال اٹھاتے ہیں ۔ اسرائیل کو اگر دنیا میں کسی سے خطرہ ہے تو وہ ملک صرف پاکستان ہے ۔ غرض یہ کہ جیسے اکیلی جان کو ہزاروں روگ ہوتے ہیں ، ایسے ہی اکیلے پاکستان کے ہزاروں دشمن ہیں ۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ انسان کا رتبہ جتنا عالی ہوتا ہے ، آزمائشیں بھی اتنی ہی زیادہ آتی ہیں ۔ شاید یہ بات انسان کے علاوہ ملک کے لیے بھی بجا ہے ۔ہمارا ملک اسلام کے نام پر بنا ہے ۔ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا للہ ۔ ہمارا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے ، شیطان اسلام کے نام پر بننے والے ملک کے خلاف متحرک ہے ۔ علماء کا کہنا ہے کہ شیطان انسان سے پہلے سے ہے ۔میں تو کہتا ہوں کہ پاکستان سے شیطان کی دشمنی پاکستان کے قیام سے بھی پہلے سے ہے۔ ہمارے معرکہ حق کا آغاز اسی وقت ہو گیا تھا جب ہمارے آباؤ اجداد نے پاکستان بنانے کا سوچا۔ شیطان کو ہمیشہ چیلے چانٹے مل جاتے ہیں ۔ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ مو من بعض اوقات اکیلا ہوتا ہے ۔ شیطان کے چیلے چانٹوں کے گرد ہمیشہ میلہ ہوتا ہے لیکن شیطان اس میلے کے باوجود بھی چبلیں مارتا ہے، ہارتا ہے ، اپنے مدد گاروں کو پکارتا ہے ۔ تحریک آزادی کے دوران شیطان کو مدد گار میسر رہے مگر جناح اور اقبال کا بھروسہ اللہ پاک پر تھا ۔فتح مومن کا مقدر ہوتی ہے ۔ جناح اقبال مومن تھے ، جناح مومن تھے ، حصول آزادی کے جنگ میں وہ فتح یاب ہوئے ۔ شیطان تلملاتا رہا۔ اپنے چیلوں کو نئے نئے طریقے سمجھاتا رہا ۔چیلے کبھی کشمیر میں جنگ چھیڑ دیتے ، کبھی بھارت میں مسلمانوں کا قتل عا م کرتے ، اپنی روح کو نیلام کرتے ، صبح شام کرتے لیکن فرقان میں واضح الفاظ میں فرما دیا گیا ہے کہ حقیقی فتح اللہ تعالی کے دوستوں کا ہی مقدر ہے ۔ دشمن ہم سے بڑا ہے ، اپنی سہولت دیکھ کر ہم سے لڑا ہے ۔ شیطان کا ہر چیلا اس کے ساتھ کھڑا ہے لیکن وقت اس کے لیے کڑا ہے اور آئندہ بھی کڑا ہی رہے گا ، انشااللہ ۔ انیس صد اڑتالیس میں ہم نے کشمیر کا کچھ حصہ آزاد کروا لیا ۔ مہاجرین کا سیلاب آیا ۔وقت گزرتا گیا ، وطن سنورتا گیا ۔ انیس صد پینسٹھ میں عقل کے اندھوں کو پھر دور کی سوجی ،پاک فوج نے ایسا سبق سکھایا کہ دنیا جانتی ہے ، مانتی ہے ، ہمارا رتبہ پہچانتی ہے ۔ابھی حالیہ مگر آخری نہیں ، معرکہ حق میں پاکستا ن کو تاریخی فتح حاصل ہوئی ہے۔تا ریخ گواہ ہے ، حق کے دشمن سازشوں سے باز نہیں آتے ۔ اگر ہمارے لوگ اپنا مورال بلند نہ رکھیں ، ان کو ہنسنے کھیلنے کی عادت نہ ہو، ان کی حس مزاح اور تر قی کرنے کا جذبہ اتنا طاقت ور نہ ہو تو ہمارا دشمن جشن منائے ۔ ہمارے لوگ انتہائی اعلی ظرف اور خوددار ہیں ۔ان کی قدر کیا کرو”۔ ولایت پلٹ اعلی تعلیم یافتہ اہلِ جھنگ کو احساس ہوا کہ لوک دانش کا اپنا ایک مقام ہے ۔ مقامی لوگوں کا آفتیں اس لیے کچھ نہیں بگاڑ سکیں تھیں کہ وہ زندہ رہنے کا ہنر جانتے تھے ، اپنی صلاحیتوں کو پہچانتے تھے ، دشمن کو کسی قابل نہ گردانتے تھے ، یہی ان کی فتح کا راز تھا ۔ دشمن بڑا بھی تھا اور بے اصول بھی ،انتہائی فضول بھی ، نا معقول بھی، شیطان کا چیلا اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ ہمیں کر دے اکیلا مگر ہم نے ہر دکھ ہنس کے جھیلا، ہمارا ہے ہر ویلا، دشمن کرے گا واویلا، ہاتھ نہ آئے گا اس کے دھیلا،انشااللہ۔اللہ تعالی نے ہمارے لوگوں کی تخلیق انتہائی محبت سے کی ہے ۔ آئیے ! اپنے ہم وطنوں سے پیار کیجیے ، سیلاب آتے رہیں گے ، جاتے رہیں گے ۔اپنا جذبہ سلامت رکھیے ، اپنی فتح پر یقین رکھیے ۔ حکومت کا ساتھ دیجیے ، مقامی انتظامیہ کے ہاتھ میں ہاتھ دیجیے ۔ اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔پاکستان زندہ باد ، پاکستان پائندہ باد۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos