مدثر رضوان
پاکستان میں گزشتہ تین سالوں کے دوران بیوروکریسی کی کرپشن کی جڑ ایک ایسی ذہنیت میں پیوست ہے جس نے ریاستی ڈھانچے کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ افسران کے ذہن میں یہ یقین راسخ ہو چکا ہے کہ چونکہ وہ نظام کو سہارا دیتے ہیں، لہٰذا نظام خود ان کی بدعنوانیوں کو ڈھانپے گا۔ یہی سوچ ان کے لیے بدعنوانی، لوٹ مار اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا سب سے بڑا جواز بن چکی ہے۔
🌐 مزید پڑھیں – Republic Policy
یہ رویہ خاص طور پر ان افسران میں نمایاں ہے جنہوں نے انتخابات میں دھاندلی، انتخابی عمل کو متاثر کرنے اور سیاسی انجینئرنگ میں کردار ادا کیا۔ یہ لوگ الیکشن منیجمنٹ میں طاقتور حلقوں کے مفادات کے محافظ بنے، اور اس کے بدلے میں ناقابلِ احتساب حیثیت اختیار کر لی۔ یہ جانتے تھے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی کیونکہ وہ سیاسی و ادارہ جاتی اشرافیہ کے کارآمد ہتھیار ہیں۔
▶️ دیکھیں – Republic Policy یوٹیوب
اس یقین نے گزشتہ دو سے تین برسوں میں کرپشن کا ایسا سیلاب کھولا جس نے ریاستی اداروں کی ساکھ کو ہلا کر رکھ دیا۔ سرکاری وسائل ذاتی مفادات کے لیے استعمال ہوئے، ترقیاتی منصوبوں سے کمیشن کھائے گئے، اہم تقرریاں وفاداری اور مالی لین دین کے تحت کی گئیں، اور عوامی فلاح کے منصوبے ذاتی تجوریاں بھرنے کا ذریعہ بنے۔
🐦 فالو کریں – Twitter/X پر Republic Policy
یہ سب کچھ کسی فرد واحد کا عمل نہیں بلکہ ایک منظم پیٹرن کا حصہ ہے، جہاں طاقتور بیوروکریٹ نظام کا سہارا لے کر مالی و سیاسی فائدے سمیٹتے ہیں۔ اس سے اداروں میں احتساب کا عمل مفلوج ہو چکا ہے کیونکہ کرپٹ افسر جانتے ہیں کہ انہیں کوئی نہیں پکڑے گا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کرپشن بیوروکریسی کی ڈھانچہ جاتی روایت بن گئی ہے۔
📘 فالو کریں – Facebook پر Republic Policy
یہ صورتحال نہ صرف حکمرانی کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ عوامی اعتماد کو بھی بری طرح مجروح کر رہی ہے۔ جب عوام کو یقین ہو جائے کہ نظام کرپٹ عناصر کا محافظ ہے، تو ان کی امیدیں اور جمہوری عمل پر بھروسہ ٹوٹ جاتا ہے، جو جمہوریت کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
📸 فالو کریں – Instagram پر Republic Policy
اس بحران کا حل واضح ہے: شفاف انتخابات، صاف حکمرانی اور مضبوط عوامی دباؤ۔ عوام کو چاہیے کہ وہ مسلسل کرپٹ عناصر کے خلاف آواز بلند کریں اور انہیں سماجی و انتظامی طور پر ایسی سزا دیں جو دوسروں کے لیے مثال بنے۔ کرپشن کے خاتمے کا آغاز اسی دباؤ سے ہوگا، ورنہ بیوروکریسی کی کرپشن کی یہ جڑ مزید گہری ہوتی جائے گی۔
🎵 دیکھیں – TikTok پر Republic Policy
نتیجہ یہ کہ پاکستان کی بیوروکریسی کی کرپشن محض مالی بدعنوانی نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا سیاسی و ادارہ جاتی گٹھ جوڑ ہے۔ اس گٹھ جوڑ کو توڑے بغیر کسی بھی قسم کی اصلاحات محض دعوے رہیں گی۔ یہی پیغام عوام، سیاست دانوں اور پالیسی سازوں کو سمجھنا ہوگا اگر ہم واقعی کرپشن سے پاک پاکستان چاہتے ہیں۔