غزہ سے ایران تک: اختلافِ رائے کے خلاف جنگ

[post-views]
[post-views]

اسامہ شہزاد چیمہ

حال ہی میں اسرائیل کی جانب سے ایران پر کیے گئے میزائل اور فضائی حملے محض فوجی کارروائیاں نہیں بلکہ ایک منظم اور بڑھتی ہوئی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں، جس کا مقصد خطے میں اسرائیل کی توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف کسی بھی سنجیدہ مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔ ایران، جو ایک خودمختار ریاست ہے، پر کھلے عام اور بلا خوف حملہ کیا گیا۔ یہ کارروائی ایک واضح پیغام دیتی ہے: نظریاتی، سیاسی یا عسکری سطح پر خودمختار مسلم مزاحمت کی گنجائش تیزی سے ختم کی جا رہی ہے۔

ایران کا ردِعمل محتاط لیکن پُرعزم تھا۔ اس نے قومی نظم و ضبط برقرار رکھتے ہوئے فوری اور جذباتی جوابی حملے سے گریز کیا، اور ساتھ ہی ایک مؤثر دفاعی پیغام بھی دیا۔ تاہم مغربی میڈیا میں اس اشتعال انگیزی کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا، اور ایران کو مسلسل جارح کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ بیانیہ بدلنے کی روایت اب ایک معمول بن چکی ہے، خصوصاً اُن مسلم ریاستوں کے خلاف جو مسلط کردہ عالمی نظام کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہیں۔

ایران پر فضائی حملے صرف وقتی یا عسکری چال نہیں، بلکہ ایک طویل المدتی اسٹریٹجک منصوبے کا حصہ ہیں۔ اسرائیل نے ایران کو طویل عرصے سے خطے میں مزاحمت کا مرکز تصور کیا ہے۔ اگر ایران کو مکمل طور پر غیر مستحکم یا عسکری طور پر کمزور کر دیا جائے، تو اسرائیل کو جنوبی اور وسطی ایشیا میں براہِ راست جغرافیائی اور سیاسی رسائی حاصل ہو جائے گی۔ اس تناظر میں پاکستان کے لیے نتائج نہایت سنگین ہو سکتے ہیں۔ اگر ایران غیر مؤثر ہو جائے تو اسرائیل پاکستان کی سرحدوں تک پہنچ سکتا ہے—ایک ایٹمی مسلم ریاست، جس کی دفاعی پوزیشن مزید کمزور ہو سکتی ہے۔

یہ غلط فہمی ترک کر دینی چاہیے کہ یہ ایک محدود تنازع ہے۔ پورے خطے کی ساخت ازسرِنو تشکیل پا رہی ہے، اور ہر وہ مسلم ملک جو خودمختار خارجہ پالیسی، اسٹریٹجک گہرائی یا مزاحمتی نظریہ رکھتا ہے، ممکنہ طور پر اگلا ہدف ہو سکتا ہے۔ اب “پیشگی سلامتی” کا نظریہ کسی حد کا پابند نہیں رہا۔

غزہ اس حقیقت کی سب سے نمایاں مثال ہے۔ لگ بھگ دو برسوں سے جاری بمباری اور محاصرے کے دوران غزہ جدید تاریخ کی سب سے طویل اور ہولناک فوجی مہمات کا شکار رہا ہے۔ اسپتال، اسکول، اور پناہ گزین کیمپ ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ ایک پوری نسل جسمانی اور سیاسی طور پر دفن کی جا رہی ہے۔

پھر بھی، غزہ جھکا نہیں۔ اس کی مزاحمت—چاہے وہ ہتھیاروں کے ذریعے ہو یا محض زندہ رہنے کے عمل میں—دہشت گردی نہیں بلکہ سیاسی شعور کی علامت ہے۔ یہی شعور، جو کسی بھی عسکری خطرے سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے، اسرائیلی تشدد کو بھڑکاتا ہے۔ مزاحمت اُس افسانے کو چیلنج کرتی ہے کہ فلسطینی شکست کھا چکے ہیں، اور اسی لیے سزا کا سلسلہ جاری ہے۔

یمن، جو خود ایک دہائی پر محیط جنگ اور محاصرے سے تباہ ہو چکا ہے، نے اسرائیل کی طرف علامتی میزائل داغ کر یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس اقدام کا جواب فوری فضائی حملوں کی صورت میں دیا گیا—نہ اس لیے کہ یمن سے کوئی حقیقی عسکری خطرہ تھا، بلکہ اس لیے کہ اُس نے جرات کی کہ وہ اظہارِ یکجہتی کر سکے۔ یہ نئی سرخ لکیر ہے: اب ہتھیار نہیں، بلکہ نافرمانی خطرہ بن چکی ہے۔

ایسے ماحول میں سعودی عرب کا ایران سے یکجہتی کا حالیہ بیان غیر متوقع اہمیت کا حامل ہے۔ جو ماضی میں امریکی و اسرائیلی مفادات سے ہم آہنگ رہا ہے، اب ریاض کا ممکنہ پالیسی رخ تبدیلی کا اشارہ دے رہا ہے۔ اگر سعودی پالیسی علاقائی خودمختاری کو بیرونی اتحادوں پر ترجیح دینا شروع کرے تو اجتماعی مزاحمت کا ایک نیا باب کھل سکتا ہے، جو فرقہ وارانہ خلیج سے بالاتر ہو کر بیرونی عسکریت پسندی کے خلاف کھڑا ہو۔

ادھر، روس اور چین کا کردار بھی غیر معمولی اہمیت اختیار کر رہا ہے۔ دونوں نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کا مطالبہ کیا ہے، لیکن ابھی تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ تاہم، مشرقِ وسطیٰ میں چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی موجودگی، خاص طور پر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، اور روس کی شام و ایران میں عسکری سرمایہ کاری، انہیں خطے کے مستقبل میں مرکزی فریق بنا چکی ہے۔

اگر یہ تنازع مکمل جنگ میں تبدیل ہوا، تو چین اور روس غالباً اس موقع کو مغربی تسلط کے خلاف عالمی بیانیے کو چیلنج کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔ ان کا ہدف براہِ راست تصادم نہیں، بلکہ عالمی نظام کی ساختِ نو ہے، جس میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی اجارہ داری ختم کی جائے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی اسرائیلی جارحیت روکنے میں ناکامی اس تبدیلی کی نشاندہی کر رہی ہے۔

غزہ کو امداد پہنچانے والی “فریڈم فلوٹیلا” کا راستہ روکنا انسان دوست سرگرمیوں کو بھی مجرمانہ قرار دینے کی علامت ہے۔ اس میں کوئی ہتھیار نہیں تھے، صرف خوراک اور دوا تھی، پھر بھی اُسے تخریبی عمل سمجھا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اختلاف، چاہے کتنا ہی نرم ہو، اب اس نظام کے لیے وجودی خطرہ بن چکا ہے۔

اور پھر، سب سے گہرا زخم بیرونی جارحیت سے نہیں، بلکہ خطے کی خاموشی سے لگتا ہے۔ مصر اور اردن، جو فلسطین کے ہمسایہ اور تاریخی ذمے دار ممالک ہیں، سرحدیں بند کیے بیٹھے ہیں، امداد روک رہے ہیں، اور اسرائیلی پروازوں کو خاموشی سے گزرنے دے رہے ہیں۔ ان کی خاموشی دراصل شراکت داری بن چکی ہے—ہر اسرائیلی میزائل اب ایک علاقائی رضامندی کے ساتھ چلتا ہے۔

نقشہ واضح ہے: اختلافِ رائے کو الگ کیا جا رہا ہے، سزا دی جا رہی ہے، اور اسے جرم بنا دیا گیا ہے—چاہے وہ عسکری ہو، علامتی، انسان دوست، یا سفارتی۔ بین الاقوامی نظام، جو دہرا معیار اختیار کر چکا ہے، اپنی قانونی ساکھ کھو چکا ہے۔ اب جو باقی بچا ہے وہ صرف مزاحمت ہے—خالص، بے ساختہ، اور دن بہ دن منتشر ہوتی ہوئی۔

یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں، یہ نافرمانی کے خلاف جنگ ہے۔ یہ غزہ میں ختم نہیں ہوتی، ایران میں نہیں رُکے گی، اور اگر مسلم دنیا نے اپنی خودمختاری کا دفاع نہ کیا، تو اگلا ہدف شاید پہلے ہی طے کیا جا چکا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos