گلگت بلتستان حکومت نے خطے میں امن کو یقینی بنانے اور امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے فوج بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ فیصلہ وزیراعلی کی سربراہی میں پارلیمانی امن کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا گیا ۔حکام نے خطے کے بڑے شہروں میں رینجرز، جی بی سکاؤٹس اور فرنٹیر کور کے اہلکاروں کو تعینات کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔یہ پیش رفت دیامر کے چلاس میں مظاہروں کے بعد علاقے میں خوف و ہراس اور بدامنی پھیلنے کے بعد سامنے آئی ہے۔
مشتعل مظاہرین نے اسکردو سے تعلق رکھنے والے ایک مذہبی رہنما کی مبینہ طور پر متنازعہ ریمارکس دینے پر گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے شاہراہ قراقرم اور بابوسر پاس روڈ کو تین دن تک بند کر دیا۔
استور، گلگت میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے، تاہم مذہبی رہنما آغا باقرال حسینی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ کے اندراج کے بعد انہیں ختم کر دیا گیا۔
اس کے ردعمل میں اسکردو میں بازاروں اور ٹرانسپورٹ کی ہڑتال کی گئی اور مظاہرین نے جگلوٹ اسکردو روڈ سمیت اہم سڑکوں کو بھی بلاک کردیا۔اس کے بعد، گلگت بلتستان حکومت نے مسافروں کی حفاظت اور گاڑیوں کی نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے قراقرم ٹاسک فورس اور پولیس اہلکاروں کو جگلوٹ-سکردو روڈ اور بابوسر ٹاپ پر تعینات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.
گزشتہ روز گلگت میں پارلیمانی امن کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں خطے میں امن و امان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ جس کی صدارت جی بی کے وزیر اعلیٰ حاجی گلبر خان نے کی اور اس میں متعدد وزراء، جی بی کے چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری، پولیس چیف اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ارکان نے شرکت کی۔ہفتہ کے روز گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں چیک پوسٹیں قائم کی گئیں۔
جی بی کے محکمہ اطلاعات کی جانب سے جاری کردہ ہینڈ آؤٹ کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جلسوں میں کسی بھی مذہب کے عقائد اور مقدس ہستیوں کی توہین کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔