مصنف: ڈاکٹر محمد کلیم
سوال: گنجے کے دکھ، درد، کرب اور مسائل پر نوٹ لکھیں اور مثالیں دے کر واضح کریں؟
جواب: استاد محترم ویسے تو میں گنجے کے دکھ کو نہیں سمجھ سکتا مگر اس کی ایک جھلک میں نے بھی دیکھی ہے۔ جب ساتویں جماعت میں والد محترم نے ہماری کثیر القوام جوؤں کی بستیاں دیکھ کر ہمارا گنج کروا دیا تھا۔ یاد رہے ہمارا گنج عارضی تھا لیکن اس نے ہمیں مستقل گنجے کے مسائل ضرور دکھا دیے تھے۔ جب ہمارا چاند نظر آیا تو سب سے پہلے مسکراہٹ ہمارے والد محترم کے چہرے پر نمودار ہوئی اور اس کے بعد نائی کی دکان پر موجود ہر شخص نے ہنسنا شروع کر دیا۔
مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/sarkari-mulazim-aur-sail/
جب نائی نے استرا پھیر کر بال اتارے اور اپنا ہاتھ ہمارے سر پر پھیرا تو ہمیں بڑی کراہت سی محسوس ہوئی اور ہاتھ پھیرنے کے بعد انہوں نے میرے سر پر اس طرح ہاتھ مارا جیسے طبلہ نواز طبلہ کو چیک کرتے ہوئے مارتا ہے اور اس کی آواز سیٹ کرتا ہے۔ والد محترم کی طرف مڑ کر اس نے کہا، ”لیں باؤ جی! ’ٹنڈ‘ تیار ہے“ ۔ ابا جی نے ہم کو اپنے ساتھ لیا اور ہمارے سر پر ٹونگا مار کر دیکھا جیسے اندازہ کر رہے ہوں کہ ہمارا سر کتنا مضبوط ہے۔ ہمارا گنج کروانا تھا کہ ہم کو یہ الفاظ کثیر تعداد میں سننے کو ملتے ’اؤے گنجے، گنجے، ٹنڈ، ٹنڈے‘ ۔
دور سے دیکھا انڈے ابل رہا تھے
قریب جا کر دیکھا گنجے اچھل رہے تھے
ہمارا گنج جب تک دکھتا رہا ہم پر طبلہ بجتا رہا اور ہمارے کان گنجے کی آواز سے گونجتے رہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہمارا گنج عارضی تھا اس لیے ہم نے برداشت کیا۔ آپ ان لوگوں کے بارے میں اندازہ لگائیں جو دائمی گنجے ہو جاتے ہیں۔ ہم نے اندازہ لگایا کہ گنجے پن کے تین ادوار ہیں : ( 1 ) جوانی ( 2 ) نیم گنجا پن ( 3 ) مکمل چاند
مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/ma-kiyoun-likhta-houn/
گنجے انسان کا سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ اس کے بال نہیں ہوتے اور وہ ہر آتے جاتے خوبصورت بال والوں کو دیکھ کر کاش کاش کی گردان لگائی رکھتا ہے۔ بال نہ ہونے کا دکھ صرف گنجا انسان ہی جان سکتا ہے، بال والوں کو اس غم کا کیا پتہ۔
آدھے بالم، آدھے گن جم
نوید انجم، نوید انجم
گنجے کو اپنے اللہ سے بھی ہر وقت شکوہ رہتا ہے کہ اس کے ساتھ ہی یہ ظلم کیوں؟ اس کا دوسرا دکھ یہ ہوتا ہے کہ عورتیں گنجی نہیں ہوتیں، کم از کم ہم نے تو آج تک مرد کی طرح مکمل چاند والی عورت نہیں دیکھی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ویسے ہی چاند کہلاتی ہیں، تو ان کو مکمل چاند رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔
گنجے کا تیسرا دکھ یہ ہوتا ہے کہ اپنے گنجے سر کو چھپانا جیسے کہ وہ چھپ جائے گا۔ لیکن ہر گنجا اپنی استطاعت کے مطابق اپنی کوشش جاری رکھتا ہے اور اپنا گنج چھپاتا ہے۔ ہمارے ایک جاننے والے تھے وہ جوانی میں ہی ’مکمل چاند‘ والے ہو گئے تھے۔ ان کا گنج اتنا ہموار اور صاف تھا کہ کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ وہاں کبھی بال بھی ہوتے تھے بلکہ کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ بچپن سے ہی گنجے تھے لیکن سائنس اس بات کو نہیں مانتی۔
اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ضرور لوگوں کی اپنی اختراع ہو گی۔ انہوں نے اپنے گنج کو چھپانے کے لیے اپنی داڑھی کے بال بڑھانے شروع کر دیے اور سر پر نماز والی ٹوپی کا استعمال رکھتے۔ اس ٹوپی کے جادو سے وہ پانچ وقت کے نمازی بھی ہو گئے تھے کیونکہ نماز والی ٹوپی جو سر پر رکھنی ہوتی تھی۔ وہ ہمیشہ اپنے سر کو اس ٹوپی سے ڈھانپ کر رکھتے جیسے ہر وقت حالت نماز میں ہوں۔
ہمارے ایک اور جاننے والے ہیں، وہ بھی ’آدھے گنجے‘ تھے۔ شکر ہے ’مکمل چاند‘ نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے مشورہ کیا اور بال ٹمپرنگ کرا لی، نہیں نہیں، بالوں کی سرجری کرا لی کیونکہ وہ آدھے گنجے تھے اس لیے ان کا گنج چھپ گیا اور آگے پیچھے سے بالوں والے ہو گئے ورنہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جو ہیئر ٹرانس پلانٹ یعنی بالوں کی سرجری کراتا ہے وہ آگے سے تو بالوں والا ہو جاتا ہے لیکن پیچھے سے اس کا چاند نمایاں ہی رہتا ہے۔
ہمارے ایک اور دوست جنہوں نے دو مرتبہ بالوں کی سرجری کرائی مگر وہ آگے پیچھے سے پھر بھی گنجے رہے۔ آخر انہوں نے تنگ آ کر بالوں والی ٹوپی (وگ) رکھ لی۔ اب وگ رکھ کر وہ جوان بلکہ نوجوان بنے پھرتے ہیں۔ بالوں والی ٹوپی کی ایک اچھی بات ہے کہ اس کے بال کبھی سفید نہیں ہوتے اور اگر آپ کے اپنے بال (تھوڑے سے ) جو ہیں سفید ہو جائیں تو بلیک اینڈ وائٹ کا ایسا خوبصورت امتزاج بنتا ہے کہ دیکھنے والے کہہ اٹھتے ہیں، گنجا وگ والا۔ کچھ نیم گنجے اپنے بقایا بال اتنے بڑے کر لیتے ہیں اور ان کو قالین بنا کر اپنے گنجے سر پر بچھا لیتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست ہیں جنہوں نے اپنے اس قالین کو ساری عمر استعمال کیا لیکن اب تو قالین پھٹنے لگ گیا ہے اور پرانا ہو کر گنجے سر کو اکثر عریاں کر دیتا ہے لیکن کوشش جاری رہتی ہے۔
گنجے بندے کو دکھ صرف گنجا بندہ ہی جان سکتا ہے۔ اگر آپ بھی اس دکھ کو جاننا چاہتے ہیں تو اپنی ٹنڈ کرائیں۔