وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔ لیکن موجودہ دور میں وجود زن سے تصویر کائنات میں صرف لال رنگ پایا جاتا ہے۔ یہ لال رنگ خوشی کا لال رنگ نہیں، بلکہ عورت کے خون کا لال رنگ ہے، جس کی مختلف صورتیں ہیں۔
موجودہ دور میں خواتین کے ساتھ پیش آنے والے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ’’جسمانی تشدد‘‘ بھی ہے۔ جس پر وہ خود بات کرنے سے کتراتی ہیں۔ شادی سے پہلے کہیں نہ کہیں ان کے جذبات و احساسات اور خوابوں کا قتل ہوتا ہے۔ شادی کے بعد جہاں کچھ خواتین پھولوں کی سیج پر موت تک کا سفر طے کرتی ہیں، وہیں کچھ ایسی بھی ہیں جو خاردار کانٹوں بھرے جنگل میں لہو رستے بدن کے ساتھ موت کا انتظار کرتی ہیں۔
ہمارے معاشرے کا المیہ تو یہ ہے کہ جو ماں باپ بیٹیوں کو ہاتھ کا چھالا بنا کر رکھتے ہیں، وہی شادی کے بعد ان کے بدن پر پڑے نیل دیکھ کر بھی نظر انداز کردیتے ہیں۔ لڑکیوں کو گھٹی میں ہی عزت و صبر کا پاٹ پڑھایا جاتا ہے۔ جنہیں طلاق اور خلع کے الفاظ سکھائے ہی نہیں جاتے۔ جنہیں طعنوں اور تشدد کو صبر سے برداشت کرنے کا درس دیا جاتا ہے۔ جنہیں وفا شعار عورتوں کی مثالیں دی جاتی ہے۔ پھر وہی عورت لاتوں، گھونسوں، ڈنڈوں سے پٹنے کے بعد بھی اپنی وفاداری کا ثبوت دیتی ہے۔ اپنے لبوں پر جھوٹی مسکراہٹ اور اس وحشی کا بھرم رکھتی ہیں جو انہیں اپنی حیوانیت کا نشانہ بناتا ہے۔ وہ آپ اپنی زبان، احساسات و جذبات کا قتل کردیتی ہیں۔ وہ بس گوشت کے لوتھڑوں کے ڈھیر کی مانند ہوجاتی ہیں۔ ان کا سرتاج ظالم بادشاہ بن کر زرخرید غلام کی طرح انہیں دھنک کر رکھ دیتا ہے۔ لیکن وہ منہ سے آہ نہیں کرتی۔ وہ خوبصورت تتلی پھر ایک پر کٹی کبوتری بن جاتی ہے جسے اڑنے کا اختیار تو دیا جاتے ہیں لیکن وہ خود اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرتی۔ اس کے پاؤں میں عزت کی ایسی بیڑیاں ڈالی جاتی ہیں جو مرتے دم تک خون رستی رہتی ہیں۔
میں نے اپنی زندگی میں کئی ایسے واقعات دیکھے ہیں جہاں عورتیں جسمانی تشدد برداشت کرتی ہیں۔ اور اپنے حق کےلیے نہیں بولتیں۔ ایسی عورتیں کس طرح ایک مثالی معاشرہ قائم کرسکتی ہیں جو خود اپنے حقوق کےلیے آواز بلند نہیں کرسکتیں؟ وہ اپنی اولاد کو ڈر کر جینا سکھائیں گی نہ کہ ان کے حقوق کےلیے آواز بلند کرنا۔

میری دلی خواہش ہے کہ عورتوں کے اس مسئلے پرعالمی سطح پر بات کی جائے، جس پر خود میری مائیں بہنیں بات کرنے سے کتراتی ہیں۔ جہاں انہیں یہ کہہ کر چپ کروا دیا جاتا ہے کہ ’ہوتا ہے‘، ’چلتا ہے‘، ’بہتر ہوجائے گا‘۔ وہ بہتر ایسا ہوتا ہے کہ اس کی کفن میں لپٹی لاش ماں باپ کو ملتی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ حوا کی بیٹی اپنے حقوق کےلیے آواز بلند کرے۔ میں چاہتی ہوں کہ وجود زن سے تصویر کائنات میں سارے رنگ ہوں۔ میری تحریر ان خواتین کےلیے ہے جو کہ خاموشی سے جسمانی تشدد برداشت کرتی ہیں۔ خدارا اٹھیے! اپنے حق کےلیے آواز بلند کیجئے۔