Premium Content

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

Print Friendly, PDF & Email

نظیر اکبر آبادی، تخلص نظیر اور شاعر بے نظیر! بے نظیر اس لئے کہ ان جیسا شاعر تو دور، ان کے زمرہ کا شاعر بھی نہ ان سے پہلے کوئی تھا نہ ان کے بعد کوئی پیدا ہوا۔ نظیر اکبر آبادی اردو شاعری کی منفرد آواز ہیں جن کی شاعری اس قدر عجیب اور حیران کن تھی کہ ان کے زمانہ کے شعری شعور نے ان کو شاعر تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ نظیر سے پہلے اردو شاعری غزل کے گرد گھومتی تھی۔ شعراء اپنی غزل گوئی پر ہی فخر کرتے تھے اور شاہی درباروں تک رسائی کے لئے قصیدوں کا سہارا لیتے تھے یا پھر رباعیاں اور مثنویاں کہہ کر شعر کے فن میں اپنی استادی ثابت کرتے تھے۔ ایسے میں ایک ایسا شاعر جو بنیادی طور پر نظم کا شاعر تھا۔ ان کے لئے غیر تھا۔ دوسری طرف نظیر نہ تو شاعروں میں اپنی کوئی جگہ بنانے کے خواہشمند تھے، نہ ان کو نام و نمود، شہرت یا جاہ و منصب سے کوئی غرض تھی، وہ تو خالص شاعر تھے۔ جہاں ان کو کوئی چیز یا بات دلچسپ اور قابل توجہ نظر آئی، اس کا حسن شعر بن کر ان کی زبان پر جاری ہو گیا۔ نظیر کی شاعری میں جو قلندرانہ بانکپن ہےوہ اپنی نظیر آپ ہے۔ موضوع ہو، زبان ہو یا لہجہ نظیر کا کلام ہر اعتبار سے بے نظیر ہے۔

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا

جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا
بلبل گل تصویر کا شیدا نہیں ہوتا

اللہ بچائے مرض عشق سے دل کو
سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا

تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گل تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا

میں نزع میں ہوں آئیں تو احسان ہے ان کا
لیکن یہ سمجھ لیں کہ تماشا نہیں ہوتا

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos