مرزا غالب کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے ہیں اوربڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے ہیں۔ مرزا غالب کی شاعری قارئین کو خوبصورت شاعری کی مدد سے اپنے اندرونی احساسات کا اظہار کرنے دیتی ہے۔
غالب ؔکی اولین خصوصیت طرف گئی ادا اور جدت اسلوب بیان ہے لیکن طرفگی سے اپنے خیالات، جذبات یا مواد کو وہی خوش نمائی اور طرح طرح کی موزوں صورت میں پیش کرسکتا ہے جو اپنے مواد کی ماہیت سے تمام تر آگاہی اور واقفیت رکھتا ہو۔
حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے
اس سے میرا مہہ خورشید جمال اچھا ہے
بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے
بے طلب دیں تو مزا اس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
ہم سخن تیشہ نے فرہاد کو شیریں سے کیا
جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے
قطرہ دریا میں جو مل جاے تو دریا ہو جائے
کام اچھا ہے وہ جس کا کہ مآل اچھا ہے
خضر سلطاں کو رکھے خالق اکبر سرسبز
شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچھا ہے
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے