بھارت: ایک فکری قید خانہ؟

[post-views]
[post-views]


گوف مین اور فوکو کے نظریات کی روشنی میں
تحریر: محمد زبیر
کبھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا بھارت، آج نریندر مودی کے دورِ حکومت میں ایک ایسی ریاستی مشین میں تبدیل ہو چکا ہے جو بظاہر آزاد مگر اندرونی طور پر فکری غلامی، نگرانی اور شدت پسندی کے جال میں جکڑا ہوا ہے۔ اب جبکہ بین الاقوامی محاذ پر بھارت کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، عوام کے پاس خود احتسابی کا ایک موقع پیدا ہوا ہے۔ اس صورتحال کو سمجھنے کے لیے اروِنگ گوف مین اور فوکو کے نظریات آج بھی نہایت مددگار ہیں۔
گوف مین کا “ٹوٹل انسٹی ٹیوشن” اور بھارتی ریاست

گوف مین کے مطابق “ٹوٹل انسٹی ٹیوشن” وہ ادارہ ہوتا ہے جو فرد کی شناخت اور سوچ کو اپنے سانچے میں ڈھال کر اسے مکمل کنٹرول میں لے آتا ہے۔ بھارت میں یہ کیفیت اب صرف جیلوں تک محدود نہیں رہی بلکہ پورا معاشرہ ایک “ٹوٹل انسٹی ٹیوشن” میں تبدیل ہو چکا ہے:
مسلمانوں اور اقلیتوں کو “دوسرا” بنا کر ان کی شناخت مسخ کر دی گئی ہے۔
میڈیا مکمل طور پر سرکاری بیانیے کا ترجمان بن چکا ہے۔

ہر اختلافی آواز کو “غدار” یا “ملک دشمن” قرار دے کر چپ کرا دیا جاتا ہے۔
مودی کی جنگ میں شکست نے بھارتی قوم کو یہ سوچنے کا موقع دیا ہے کہ کیا جھوٹی عظمت کے خواب دکھا کر ان کی اصل معاشی، تعلیمی اور سماجی مسائل سے توجہ ہٹائی جا رہی تھی؟
فوکو کا “نگرانی کا نظام” اور بھارت میں فکری جبر
فوکو کے نظریات کے مطابق جدید طاقت ظاہری جبر کے بجائے ذہنی اور سماجی کنٹرول سے کام لیتی ہے۔

بھارت میں تعلیم،میڈیا اور مذہبی بیانیے کے ذریعے ایک خاص “قوم پرستانہ” سوچ مسلط کر دی گئی ہے۔
ہر شخص کو ہر وقت یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ ریاست کی “نگرانی” میں ہے، جس سے خود نگرانی اور خود سنسرشپ کا ماحول پیدا ہو چکا ہے۔
یہ فوکو کے “پیناپٹی کن” تصور کی عملی مثال ہے۔
مگر اب شکست کے بعد یہ نگرانی کا طلسم کمزور پڑنے لگا ہے۔ جیسے جرمنی کی عوام ہٹلر کی شکست کے بعد جاگی تھی، بھارت کے عوام کے پاس بھی اب آنکھیں کھولنے کا موقع ہے۔

نفسیاتی بیگیج اور شکست کی ذلت

صدیوں تک مسلمانوں کی حکومت کا نفسیاتی بوجھ بھارت کے اجتماعی لاشعور پر سوار رہا ہے۔ پاکستان سے نفرت دراصل اسی تاریخی احساسِ کمتری کا اظہار ہے۔ مودی حکومت نے اسی نفرت کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کیا:
پاکستان دشمنی کے ذریعے مصنوعی قوم پرستی کا نشہ دیا گیا۔
جعلی عسکری فتوحات اور فیک نیوز کے ذریعے عوام کو گمراہ کیا گیا۔
لیکن حالیہ شکست نے اس مصنوعی بیانیے کو مٹی میں ملا دیا ہے۔

خود تباہی کا عمل
جب کوئی قوم مسلسل حسد، نفرت اور جھوٹ میں جینے لگے تو وہ آہستہ آہستہ خود کو ہی تباہ کرتی ہے۔ بھارت اس وقت اسی راستے پر گامزن ہے:
معیشت، تعلیم، صحت اور سماجی ہم آہنگی جیسے حقیقی مسائل کو نظر انداز کر کے صرف انتہا پسندی پر فوکس کیا گیا۔
پس بھارت عالمی سطح پر تنہا ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستانیوں کے لیے بھارت پر آگ برسانے کی ضرورت نہیں، وہ اپنے حسد اور غضب کی آگ میں خود جلتا رہے گا۔
اگر بھارتی عوام اب بھی اپنی تاریخ، نفسیات اور حقائق کا سامنا کرنے سے گریز کرے گی تو انجام مزید خطرناک ہوگا۔
لیکن اگر عوام نے سچ کو تسلیم کرنے، سوال اٹھانے اور تنقیدی سوچ اپنانے کا حوصلہ پیدا کر لیا تو شاید بھارت ایک حقیقی جمہوریت بن سکے۔
بصورتِ دیگر گوف مین کے الفاظ میں بھارتی فرد کی شناخت “تحلیل” ہو کر صرف ایک مطیع رعیت رہ جائے گی، جو نہ سوچ سکتی ہے نہ سوال کر سکتی ہے۔
بھارت میں جمہوریت کا لباس باقی ہے مگر اس کے اندر چھپی نرم آمریت پورے معاشرے کی ذہنی آزادی کو قید کر چکی ہے۔ اب شکست کے بعد بھارت کے پاس جرمن قوم کی طرح جاگنے کا آخری موقع ہے جنھیں ہٹلر کی حماقتوں کا ادراک بالآخر ہوگیا تھا۔ بصورتِ دیگر انڈیا خود اپنی نفرت کی آگ میں جل کر راکھ ہو جائے گا۔
درسری طرف پاکستان پر بعض اوقات فکری جمود یا ریاستی بیانیے کی سختی کا الزام ضرور لگتا ہے، مگر پاکستانی معاشرہ یک رخا نہیں۔یہاں آزاد روحیں، تنقیدی فکر، اور متنوع آوازیں اب بھی موجود ہیں۔
خصوصاً صوفیانہ کلچر، جو پاکستان کے روحانی ورثے کا حصہ ہے، عوام میں رواداری، برداشت، اور داخلی وسعت پیدا کرتا ہے۔ یہ کلچر فرد کو اندھی تقلید سے نکال کر دل و دماغ کی آزادی کی طرف مائل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں نہ صرف سیاسی مزاحمت زندہ ہے بلکہ ادب، شاعری، اور صحافت میں بھی سچ کہنے والے موجود ہیں۔
یہ ایک مثبت سماجی قوت ہے جو ریاستی دباؤ کے باوجود اجتماعی شعور کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos