طارق محمود اعوان
آج کل بھارتی میڈیا کی خبروں پر یقین کرنا کسی کھیل سے کم نہیں لگتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ناظرین ہر خبر کے بعد خود کو حقیقت میں واپس لانے کے لیے ایک گہری سانس اور چائے کی پیالی کے محتاج ہو جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر، پچھلے دنوں بھارتی نیوز چینلز نے پاکستان کے خلاف اپنی فوجی کارروائیوں کی ایسی سنسنی خیز خبریں چلائیں کہ سچائی کہیں پیچھے رہ گئی۔ ایک نیوز ادارہ نے دعویٰ کیا کہ اسلام آباد پر قبضہ ہو چکا ہے، دوسرے نے کہا کہ پشاور پر بمباری کی گئی ہے۔ کسی نے کہا لاہور بھارتی ٹینکوں کے نشانے پر ہے تو کسی نے کراچی پورٹ کو آگ کی لپیٹ میں دکھایا۔ ایک نے کہا کہ پاکستان کا ایف-16 طیارہ مار گرایا گیا ہے، تو دوسرے نے اعلان کر دیا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
لیکن سب سے عجیب منظر اُس وقت دیکھنے کو ملا جب ایک بھارتی نیوز ادارہ پر بیٹھے نام نہاد ماہرین نے جوش و خروش کے ساتھ دعویٰ کیا کہ بھارتی فوج نے پاکستان پر زمینی حملہ شروع کر دیا ہے۔ اس سب نے میڈیا کی غیر سنجیدگی کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا۔
جنگ میں سچ سب سے پہلے قربان ہوتا ہے، لیکن اس طرح سچائی کا گلا گھونٹنا حیران کن ہے۔ جنگی حالات میں خبریں دھندلا سکتی ہیں، مگر خبر رساں اداروں کا کام اس دھند کو ختم کرنا ہوتا ہے، نہ کہ خود دھند پیدا کرنا۔ بدقسمتی سے پاکستانی میڈیا بھی اس دوڑ سے باہر نہیں، بعض چینلز اور ان کے ماہرین بھی بغیر تصدیق کے خبریں نشر کرتے رہے ہیں۔ ایسے مواقع پر میڈیا کو چاہیے کہ سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔
پاکستانی میڈیا کی یہ خوبی ضرور ہے کہ جب وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا تو عوام اسے کھل کر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ بہت سے لوگ سرکاری میڈیا پر اعتماد نہیں کرتے اور غیر جانبدار ذرائع یا غیر ملکی میڈیا سے سچ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن بھارت میں ایسا لگتا ہے کہ بڑے نیوز چینلز ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں قومی جذبات کو ہوا دینے میں مصروف ہیں، اور انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ کس حد تک جھوٹ کو فروغ دے رہے ہیں۔
یہ بھی اطلاعات آئی ہیں کہ بھارتی حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ایکس اور میٹا کو مجبور کیا ہے کہ ہزاروں اکاؤنٹس بلاک کریں تاکہ نئی دہلی کا بیانیہ برقرار رہے۔ یہ صورتحال دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے پر سوال اٹھاتی ہے۔ خاص طور پر جب ان کے اپنے عوام کو جھوٹی، گمراہ کن اور خطرناک اطلاعات دی جا رہی ہوں۔ میڈیا کی یہ غیر ذمہ داری عوامی ذہنوں میں غیر حقیقی امیدیں پیدا کرتی ہے، اور جب یہ امیدیں پوری نہیں ہوتیں تو حکومت پر دباؤ بڑھتا ہے کہ دشمن کے خلاف مزید سخت اقدامات کرے۔ یہی دباؤ چھوٹی جھڑپوں کو بڑی لڑائیوں میں بدل سکتا ہے۔
اس نازک صورتحال میں صحافیوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو درست معلومات فراہم کریں، نہ کہ جذبات بھڑکائیں۔ اگر میڈیا اس ذمہ داری سے غافل ہو جائے تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کے میڈیا کو چاہیے کہ اس انتباہ کو سنجیدگی سے لیں اور سچ کو سامنے لانے کی اپنی اصل ذمہ داری کو نہ بھولیں۔