بلاول کامران
بھارت کی حالیہ خارجہ پالیسی کے رجحانات ایک واضح اور مستقل پیغام دیتے ہیں: قومی مفادات کو بیرونی دباؤ پر فوقیت دینا۔ دنیا کے پیچیدہ حالات میں، جہاں امریکی اثر و رسوخ غالب ہے، بھارت مسلسل ایک خود مختار اور آزاد اسٹریٹجک ریاست کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ یہ رویہ اس تاریخی تسلسل کی عکاسی کرتا ہے جو سرد جنگ کے دور میں بھارت نے اختیار کیا تھا، جب اس نے امریکہ یا سوویت یونین کے کسی بھی بلاک کا مکمل حصہ بننے کے بجائے غیر وابستہ تحریک کو ترجیح دی۔
یہی اصول آج بھی نظر آتا ہے۔ امریکہ نے چین اور روس کے خلاف اپنے اتحادیوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے اور معاشی و سفارتی دباؤ بھی ڈالا ہے، لیکن بھارت نے اپنی آزاد خارجہ پالیسی جاری رکھی۔ بڑی طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات رکھتے ہوئے، بھارت یہ واضح کرتا ہے کہ وہ کسی بھی جغرافیائی سیاسی ایجنڈے کا تابع بننے سے گریز کرتا ہے۔
بھارت کی آزادانہ خارجہ پالیسی کی ایک نمایاں مثال روسی توانائی کی خریداری جاری رکھنا ہے، باوجود اس کے کہ واشنگٹن نے اس پر ناپسندیدگی ظاہر کی۔ یوکرین تنازعے اور امریکی پابندیوں کے بعد کئی ممالک نے روسی توانائی کی درآمدات کم کر دیں، مگر بھارت نے اپنے 1.4 ارب سے زائد عوام کے لیے سستی توانائی کے حصول کے حق پر زور دیا۔
روسی تیل کی درآمد جاری رکھ کر بھارت نے اپنی اسٹریٹجک خود مختاری کا ثبوت دیا۔ اس نے واضح کیا کہ دنیا کی طاقتور ترین قوم کی وارننگز بھی اس کے اندرونی معاشی اور توانائی کے تقاضوں پر غالب نہیں آ سکتیں۔ یہ رویہ نہ صرف بھارت کی فوری ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ اسے عالمی سطح پر ایک خود مختار اور خود اعتماد ریاست کے طور پر پیش کرتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت نے بھارت کی پُراعتماد خارجہ پالیسی کو اجاگر کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ متعدد مواقع پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو تجارتی پالیسیوں اور توانائی کے معاملات پر دھمکیاں دیں، لیکن بھارتی حکومت نے بغیر کسی کھلے تصادم کے اپنی پالیسی پر قائم رہتے ہوئے اپنے موقف کو برقرار رکھا۔
یہ حکمتِ عملی اس تاثر کو مضبوط کرتی ہے کہ بھارت دباؤ یا وقتی مفاد پر مبنی سفارت کاری کے آگے نہیں جھکتا۔ مودی کے محتاط مگر پختہ رویے نے بھارت کو امریکہ کے ساتھ تعلقات کو متوازن رکھنے میں مدد دی اور اس کی خود مختاری پر سمجھوتہ نہیں ہونے دیا۔ عالمی مبصرین کے لیے یہ واضح پیغام ہے کہ بھارت ایک بالغ، باوقار اور خود اعتماد عالمی کھلاڑی کے طور پر ابھر رہا ہے۔
بھارت کی یہ روش ایک طویل المدتی اسٹریٹجک وژن کی عکاسی کرتی ہے، نہ کہ صرف ردعمل پر مبنی فیصلہ سازی کی۔ قومی مفاد کو اولین ترجیح دے کر بھارت ایک قابلِ بھروسہ اور پیش گوئی کے قابل شراکت دار کی حیثیت بنا رہا ہے۔ وقتی طور پر بیرونی دباؤ کے آگے جھکنا سہولت تو دے سکتا ہے، مگر یہ اس کی خود مختاری اور عالمی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اصل چیلنج یہ ہے کہ بھارت کب تک اس آزادی کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ جیسے جیسے امریکہ، چین اور روس کے درمیان طاقت کا توازن بدلتا ہے، بھارت کو بھی نئے دباؤ کا سامنا ہوگا۔ انہی حالات میں بھارت کی موجودہ خارجہ پالیسی کی کامیابی یا ناکامی کا تعین ہوگا۔
ٹرمپ کے دور میں بھارت کو ایک ایسے امریکی رویے کا سامنا رہا جو دباؤ، کھلے بیانات اور وقتی مفادات پر مبنی مطالبات پر مشتمل تھا۔ یہ ماحول بھارت کے لیے چیلنجنگ تھا، لیکن اس نے سفارتی مہارت دکھائی۔ جہاں فائدہ تھا، وہاں تعاون کیا—جیسے ٹیکنالوجی اور سلامتی کے معاملات میں—اور جہاں قومی مفاد متاثر ہوتا، جیسے توانائی یا علاقائی خود مختاری میں، وہاں نرمی سے انکار کیا۔
موجودہ کثیر قطبی دنیا میں بھارت کے فیصلے علاقائی اور عالمی سطح پر اثر ڈالتے ہیں۔ سخت صف بندی سے گریز کرتے ہوئے بھارت اپنی ثالثی، مذاکرات اور اثر و رسوخ بڑھانے کی گنجائش محفوظ رکھتا ہے۔ اس کی اسٹریٹجک خود مختاری اسے ایشیا کے طاقت کے نئے توازن میں ایک اہم کھلاڑی بناتی ہے۔
تاہم، یہ راستہ داخلی مضبوطی کا تقاضا کرتا ہے۔ معاشی استحکام، توانائی کی سلامتی اور مضبوط ادارے وہ بنیاد ہیں جن پر آزاد خارجہ پالیسی کھڑی رہ سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر، مستقبل میں بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔
بھارت کی موجودہ خارجہ پالیسی اس کی خود مختاری کے پختہ عزم کی نمائندگی کرتی ہے۔ قومی مفاد کو مقدم رکھ کر، امریکی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے اور عالمی طاقتوں سے آزادانہ تعلقات قائم کر کے، بھارت ایک نئے پراعتماد سفارتی بیانیے کو تشکیل دے رہا ہے۔
اصل امتحان اس پالیسی کے تسلسل میں ہے۔ اگر بھارت طویل مدتی دباؤ کے باوجود اپنی اسٹریٹجک آزادی قائم رکھنے میں کامیاب رہتا ہے تو یہ نہ صرف اس کی خود مختاری کی ضمانت ہوگی بلکہ اسے عالمی سیاست میں ایک فیصلہ کن طاقت کے طور پر بھی مستحکم کرے گا۔