اسرائیل-ایران تناؤ: خطے اور عالمی امن کے لیے خطرہ

[post-views]
[post-views]

مدثر رضوان

اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ فوجی کشیدگی مشرق وسطیٰ کے پہلے سے ہی نازک سلامتی کے ماحول کے لیے ایک سنگین پیش رفت ہے۔ ایک ایسا تنازع جو ماضی میں بالواسطہ کارروائیوں، خفیہ آپریشنز اور پراکسی جنگوں تک محدود تھا، اب براہ راست فوجی حملوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس تبدیلی کے علاقائی ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

جمعہ کے روز اسرائیل نے ایران کے جوہری اور عسکری انفراسٹرکچر پر بڑے پیمانے پر حملے کیے، جنہیں اسرائیل نے ایران کو مبینہ جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے ایک طویل فوجی مہم کا آغاز قرار دیا۔ جواباً، ایران نے سینکڑوں میزائل داغے جن کا ہدف اسرائیل کے بڑے شہر — یروشلم اور تل ابیب — تھے۔ اس طرح کی براہ راست اور بڑے پیمانے پر عسکری کارروائیاں اس بات کا عندیہ ہیں کہ مشرق وسطیٰ ایک خطرناک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔

علاقائی استحکام کے تناظر میں، یہ صورتِ حال سفارتی کوششوں کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے، خصوصاً ایران کے جوہری معاہدے سے متعلق مذاکرات کو۔ ایران کی جانب سے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کو “بے معنی” قرار دینا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سفارتی اعتماد تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ دوسری جانب، اسرائیل کی طرف سے اس معاملے کو وجودی خطرہ قرار دینا، اور ہولوکاسٹ جیسے تاریخی المیوں کا حوالہ دینا، اس کشیدگی کے جذباتی اور نظریاتی پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے۔

پاکستان اور دیگر علاقائی ممالک کے لیے یہ کشیدگی کئی سطحوں پر تشویشناک ہے۔ سب سے پہلے، اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ یہ تنازع لبنان، شام یا خلیجی ممالک سمیت دیگر ریاستوں تک پھیل سکتا ہے۔ دوسرا، انسانی جانوں کا نقصان اور معاشی و سماجی اثرات نہ صرف متاثرہ ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے گہرے ہوں گے۔

چین کی جانب سے اقوام متحدہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کی مذمت اور کشیدگی کم کرنے پر زور دینا، اس عالمی تقسیم کی نشاندہی کرتا ہے جو اس بحران سے جنم لے رہی ہے۔ اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تنازعات اب صرف علاقائی نہیں رہے — بلکہ وہ عالمی طاقتوں کے سیاسی و سفارتی اثرورسوخ سے منسلک ہو چکے ہیں۔

پاکستان، جو امن پسند خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی قوانین کے احترام کی بات کرتا آیا ہے، اس موقع پر اپنی سفارتی ذمہ داری ادا کر سکتا ہے۔ غیرجانبداری برقرار رکھتے ہوئے، اسلام آباد کو چاہیئے کہ وہ فریقین کو تحمل اور مذاکرات کی طرف لانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ساتھ ہی، حکومت کو اپنے شہریوں کی حفاظت، عالمی توانائی کی منڈیوں اور تجارتی راستوں پر اس بحران کے ممکنہ اثرات پر بھی نظر رکھنی ہو گی۔

اختتاماً، اسرائیل اور ایران کے مابین یہ تنازع صرف دو ممالک کا باہمی مسئلہ نہیں — بلکہ یہ بین الاقوامی سفارت کاری، علاقائی تنازع کے نظم و نسق، اور عالمی امن کے لیے ایک آزمائش ہے۔ اب وقت ہے کہ عالمی برادری دانش، تحمل اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرے تاکہ ایک اور تباہ کن جنگ سے بچا جا سکے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos